کراچی (ٹی وی رپورٹ) وزیراعظم کے مشیربرائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے کہاہے کہ نیب کے ضمانت اور گرفتاری کے اختیارات کو لے کر بہت کنفیوژن پھیلائی جاتی ہے، بلاول بھٹو اس ملک میں نہ رہے ہیں نہ انہیں اس کے قوانین کا پتہ ہے،سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت کہتی ہے نیب کا قانون غلط ہے لیکن ان میں ہمت نہیں ہے اس کو بدل سکیں اگر ہم بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے این آر او مانگ رہے ہیں۔ نیب ایک اندھا اور کالا قانون ہے ۔ ایک انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ بلاول بھٹو اس ملک میں نہ رہے ہیں نہ انہیں اس کے قوانین کا پتہ ہے جو پراپرٹی ڈکلیئریشن ابھی ہوا ہے کوئی قانون قاعدہ موجود نہیں ہے جو اُن سے ریکوائر کرے کہ انہوں نے کیبنٹ کو ڈکلیئر کرنا ہے وزیراعظم نے آرڈر کیا تمام ایس اے پی ایم اور ایڈوائزر ز نے ڈکلیئر کر دئیے دوسرا حکم وزیراعظم کی طرف سے آیا کہ ان کو پبلک کر دیا جائے سب اثاثے پبلک کر دئیے گئے۔ قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ پر سوال کرتے ہیں یہ ایک کیس چل رہا ہے اس پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی کوشش کی جارہی ہے وہ مختلف کیس ہے تین جائیدادیں کیش ٹرانزیکشن کے ساتھ خریدی گئی ہیں ورثے میں نہیں ملیں میری کوئی پراپرٹی نہیں میری اہلیہ کی اپنے والد کی طرف سے اُن کے وفات پر ملا ہے وہ ٹیکس ڈکلیئر کرتی ہے اپنے ٹیکس میں بھی میں نے اپنے ٹیکس میں ڈکلیئر کیا میں 1993 سے ڈکلیئریشن دے رہا ہوں اس میں یہ ساری پراپرٹی ہیں۔نیب کے ضمانت اور گرفتاری کے اختیارات کو لے کر بہت کنفیوژن پھیلائی جاتی ہے ، سپریم کورٹ کا آرڈر دو ججز کا ہے تین ججز کا اسی سپریم کورٹ کا آرڈر ہے کہ بیل آرڈر میں یہ چیزیں نہیں لکھنی اس پر کوئی بات نہیں کرتا گرفتاری کا اختیار اگر اتنا ہی برا ہے تو کمنٹری نہیں کرنا چاہیے لکھ دیں دائرہ اختیار سے باہر ہے خلاف آئین ہے۔ اسی آرڈر کے آخر میں لکھا ہوا ہے کہ جو کچھ اوپر کہا ہے اس کا کیس پر اطلاق نہیں ہوگا۔چیک باؤنس کے حوالے سے ایک سیکشن ہے اس کے علاوہ کہیں قانون میں کچھ نہیں لکھا کیا ہوگا کیا طریقہ کار ہوگا نیب کا 37-38 سیکشنز کا پورا آرڈیننس موجود ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت کی گئی ہے ، یا تو آپ یہ کہیں کہ گرفتاری کا اختیار کسی ادارے کو نہیں ہے ۔حمزہ شہباز کا کیس ریفرنس میں داخل ہوچکا ہے۔ گرفتار چاہے ایس ایچ او کے کہنے پر ہوئی ہو یا چیئرمین نیب کے آرڈر پر ہوئی ہے ایس ایچ او گریڈ چودہ پندرہ کا افسر ہوتا ہے چیئرمین نیب کی تین کیٹگریز ہیں ایک فارمل جج آف سپریم کورٹ اس کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ہوسکتا ہے ایک بائیس گریڈ کا بندہ ریٹارڈ ہوسکتا ہے ، گرفتار ہونے کے بعد دونوں اشخاص کریمنل پروسیجر کورٹ کے طابع ہوجاتے ہیں تینوں چیزیں اس کے تحت چلتی ہیں چاہے وہ نیب کے تھرو گرفتار ہوا ہویا اس کے تھرو گرفتار ہوا ہے ۔ایک سال رکھ کر آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے جواب میں کہا کہ یہ سوال آپ جوڈیشری سے کریں ، جب آپ جوڈیشل تحویل میں آجاتے ہیں تو تحقیقاتی ڈیپارٹمنٹ کی تحویل میں نہیں رہتے۔