• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مشکل حالات، مشکل فیصلوں کا تقاضا کرتے ہیں۔‘‘یہ اصول جس قدر عام افراد کے لیے اہم ہے، اُسی قدر، بلکہ اُس سے بھی زیادہ حکومتوں کے لیے اہم ہے۔ذرا سوچیے! اس سے زیادہ مشکل حالات کیا ہوں گے کہ دنیا کے تقریباً تمام چھوٹے، بڑے،ترقّی یافتہ اور غریب ممالک ایک ایسی مصیبت میں گرفتار ہیں، جس کا اُن کے پاس کوئی حل موجود نہیں۔ایک طرف تو کورونا وائرس عالمی وبا کا رُوپ دھارے ہوئے ہے، تو دوسری طرف، تاحال اس سے بچائو کی کوئی ویکسین بھی سامنے نہیں آ سکی۔بلاشبہ عام افراد کی زندگیاں بچانا حکومتوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، مگر معاشی چیلنجز بھی کچھ کم اہم نہیں کہ کورونا نے دنیا بھر کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور معاشی تباہ کاری کا یہ سلسلہ کسی طور تھمنے میں نہیں آرہا۔

آئے دن آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کے دل دہلا دینے والے تجزیے سامنے آرہے ہیں، جن میں عالمی معیشت کے فوری یا مستقبل قریب میں بہتر ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔دنیا کو ایسی بدترین صُورتِ حال کا سامنا دوسری عالمی جنگ کے دَوران اور اُس کے بعد بھی نہیں کرنا پڑا تھا۔ عالمی جنگوں میں دنیا واضح طور پر ایک دوسرے کے مخالف گروپس میں بٹی ہوئی تھی اور ہر مُلک کی یہی کوشش تھی کہ وہ اپنے حریف کو پچھاڑ کر خود اُس کی جگہ لے لے۔ دشمن کو ایسی جگہ لے جا کر مارے، جہاں اُسے پانی بھی میّسر نہ ہو۔اُسے جو جو نقصان پہنچانا ممکن ہو، پہنچایا جائے، خواہ اس کے لیے لاشوں کے ڈھیر ہی کیوں نہ لگانے پڑیں ۔ اور ایسا ہی ہوا، مخالف کے ساتھ جو کچھ کیا جاسکتا تھا، کیا گیا، یہاں تک کہ امریکا نے تو جاپان پر ایٹم بم تک گرا دئیے۔ جنگ کی تباہ کاریاں اتنی زیادہ تھیں کہ ایک بار تو دنیا سَر پکڑ کر بیٹھ گئی، ایسے ادارے بھی موجود نہیں تھے، جو متاثرہ ممالک کی مدد کو آتے، لیکن تباہ حال ممالک جلد ہی اُٹھ کھڑے ہوئے۔

تاہم عوام کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تو عالمی جنگیں اُن کے لیے بہتری لائیں۔ بہت سی اقوام اور ممالک صدیوں کی غلامی سے آزاد ہوگئے۔ نوآبادیات اور قبضوں کا تصوّر ختم ہوا۔ جنگ ایک آخری حربہ اور ساری دنیا میں قابلِ نفرت بن گئی۔اب سوال یہ ہے کہ ایک ایسی عالمی وبا سے لوگ اِس قدر کیوں خوف زدہ ہیں، جس سے لڑنے کے لیے 200 مُلک متحد ہیں؟یہ انسانیت کا مسئلہ قرار دیا جاچُکا ہے۔تمام عالمی ادارے، مالیاتی ہوں یا صحت اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھتے ہوں، کورونا کو شکست دینے کے لیے ایک پیج پر ہیں، تو فی الحال ہم تین شعبوں پر بات کریں گے۔طبّی، سیاسی اور معاشی۔

گو آج کل سیاست اور معیشت میں ناخن اور گوشت کا سا رشتہ ہے، جنھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔جب پہلی اور دوسری عالمی جنگیں ہوئیں، تو اُن میں شریک ممالک نے اس اَمر پر زور دیا کہ طاقت میں اضافے کے لیے سب کچھ جنگوں میں جھونک دیا جائے۔فوج میں اضافہ اور نت نئے ہتھیاروں کی تیاری ان ممالک کی اولین ترجیح بن گئی۔اسی لیے بندوقوں سے لے کر توپوں اور طیاروں سے لے کر اٹیم بم تک اُسی زمانے میں ایجاد ہوئے۔یہ الگ بحث ہے کہ اُنہوں نے کتنی تباہی مچائی، لیکن یہی وہ دو اہم ذرایع تھے، جن کی مدد سے عالمی جنگیں چھے چھے سال تک بلاروک ٹوک انسانیت کو برباد کرتی رہیں۔ اس سے محروم طبقات میں اس احساس نے جنم لیا کہ حکومتیں عوام کی بہتری کی بجائے اُنھیں تباہ کرنے پر کیوں مُصر ہیں؟ 

جب کہ اُن کا جنگوں سے براہِ راست کوئی تعلق بھی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس دوران عوام کی طاقت یعنی جمہوریت کا نظریہ مضبوط ہوا۔ یہ سوال بھی سامنے آیا کہ آخر کیوں اربوں انسانوں کو چند طاقت وَر افراد کی خواہشات کی بھینٹ چڑھا یا جائے؟ یہ کون سی سیاست اور ڈپلومیسی ہے؟ اس عوامی بیداری اور جنگ کے نتیجے میں بڑی بڑی سلطنتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر زمیں بوس ہوئیں اور عوام کو آزادی نصیب ہوئی۔یہ اسی آزادی کی قوّت تھی کہ دنیا نے1945 ء کے بعد جتنی ترقّی اور معیارِ زندگی کی بلندی دیکھی، ایسی پوری تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔جس قوم نے محنت کی، اُسے ضرور پھل ملا۔ جاپان اور جرمنی جیسے تباہ حال مُلک آج دنیا کے ترقّی یافتہ ممالک میں آگے آگے ہیں، تو یہ اُسی محنت کا نتیجہ ہے۔

چین دوسری بڑی طاقت نہ ہوتا، جہاں کے عوام بیس ویں صدی کے اوائل میں افیون اور پے درپے شکستوں سے کسی کام کے نہیں رہے تھے۔55 لاکھ آبادی کے مُلک، سنگاپور کے فارن ایکس چینج ذخائر کی مثالیں نہ دی جاتیں۔جنوبی کوریا’’ ایشین ٹائیگر‘‘ نہ ہوتا، یہاں تک کہ ویت نام، جو80 ء کے عشرے میں آزاد ہوا، صرف تیس سال میں دنیا کی ایمرجنگ اکانومی میں شامل نہ ہوتا۔بلاشبہ مُلکوں کی ترقّی میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا کلیدی کردار رہا ہے، لیکن محنت تو اِن اقوام نے خود ہی کی۔اِس ضمن میں عالمی تعاون ہی عالمی ترقّی کی بنیاد بنا۔بالکل یہی پیٹرن کورونا وبا کے دَوران بھی دیکھا گیا۔

لاک ڈائون ہوئے، لوگ گھروں میں پڑے رہنے پر مجبور ہوئے، ایک دوسرے سے دُور رہے، اُنہوں نے یہ سب کچھ اپنے اور اپنے مُلک کی حفاظت کے لیے برداشت کیا۔ان ممالک میں معیارِ زندگی اور شعور کی آگہی اتنی بلند ہے کہ وہ دوست، دشمن کی پہچان کرسکتے ہیں۔ان کی منتخب حکومتیں درست فیصلے کر رہی ہیں۔انسانی غلطی کا امکان اپنی جگہ، لیکن متاثرین کی تعداد میں اضافے کے باوجود مشترکہ دشمن کے خلاف مقابلہ بہرحال کام یاب ہے۔ اس کا اندازہ اس اَمر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ساڑھے سات ارب کی عالمی آبادی میں صرف ایک کروڑ، ساٹھ لاکھ افراد کورونا سے متاثر ہوئے، جن میں سے ساٹھ فی صد سے زاید صحت یاب بھی ہوچکے ہیں، صرف ایک فی صد کیسز خطرناک قرار دئیے جا سکتے ہیں۔ 

تاہم، یہ بھی واضح رہے کہ یہ حالت اُن ممالک کی ہے، جہاں علاج، لاک ڈائون اور احتیاطی تدابیر پر پوری توجّہ دی گئی۔جو بیانات پر کھیلتے رہے، وہ آج بھی کورونا کے ساتھ جینے کی باتیں کرکے عوام کو تسلّی دینے میں مگن ہیں۔یہ پہلو بھی سامنے رہے کہ گزشتہ چھے ماہ سے کم ترقّی یافتہ ممالک میں بھی ڈاکٹرز اور دیگر طبّی عملہ زیادہ بہتر طریقے سے خدمات انجام دے رہا ہے۔صوبہ سندھ کے سرکاری اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کورونا سے شفا پانے والوں کی تعداد اسّی فی صد تک پہنچ چُکی ہے۔

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا لاک ڈائون کا فیصلہ غلط تھا؟ اس کے جواب میں ماہرین متفّق ہیں کہ’’ قطعاً نہیں۔‘‘ ان کے مطابق شروع میں علاج اور وائرس سے متعلق معلومات اِتنی کم تھیں کہ اسے محدود کرنے کے لیے لاک ڈاؤن کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ یہی چین کا طریقہ رہا۔اس سے وائرس کی انسان سے انسان میں منتقلی کو کنٹرول کیا گیا۔رہا یہ سوال کہ لاک ڈاؤن کے معاشی اثرات کیا رہے؟ تو جواباً یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’اگر جان ہے، تو جہان ہے۔‘‘ آج معیشت کی بحالی پر جو توجّہ مرکوز ہے، وہ اسی اولین کام یابی کا نتیجہ ہے۔

اگر کورونا لاک ڈائون کے مرحلے پر کنٹرول نہ ہوتا، تو وہ ٹائم اور اسپیس سائنس دانوں اور ڈاکٹرز کو کہاں سے ملتا، جس سے وہ مختلف ادویہ کے ذریعے علاج کی کوشش کرسکتےتھے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب وہاں کے عوام میں اعتماد پیدا ہوچُکا ہے۔وہ یہ نہیں پوچھتے پِھر رہے کہ اب کیا ہوگا۔حکومت کے پاس مریضوں کا ڈیٹا ہے، تو سائنس دانوں اور ڈاکٹرز کے پاس علاج کی سہولتیں۔مریض لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بیڈز کے لیے رُلتے نہیں پِھر رہے۔ وہاں سازشی نظریات پنپ نہیں سکے۔کوئی ڈاکٹرز کو ڈالر لے کر زہر کے ٹیکے لگانے کے طعنے نہیں دے رہا۔ اُن مُلکوں میں ماہرین یہ بھی اندازے لگا رہے ہیں کہ اگر کورونا کی دوسری ممکنہ لہر آئی، تو اُس کے اثرات سے کیسے بچا جائے؟ ایک دو ویکسینز تیاری کے آخری مراحل میں ہیں۔آکسفورڈ یونی ورسٹی میں کورونا وائرس کی ویکسین بس تیار ہونے کو ہے۔

یہ ویکسین محفوظ ہے اور وائرس کو روک بھی سکتی ہے۔ نیز، اس کے سائیڈ ایفیکٹس بھی نہ ہونے کے برابر بتائے جاتے ہیں۔یہ سب اِسی دنیا میں ہوا اور انہی ڈاکٹرز اور سائنس دانوں نے کیا، جب کہ حکومتیں لوگوں کو جینے کا حوصلہ دیتی رہیں۔اس پورے عرصے کے دَوران کسی ایک بھی انسان کے بھوک سے مرنے کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔

ہمارا حال یہ ہے کہ آئے روز بہت سی خوش خبریاں اور دعوے سامنے آرہے ہیں۔ وزیرِ اعظم، عمران خان کا کہنا ہے کہ اُن کی اسمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی بہت کام یاب ہے۔ اس سے مرض کا پھیلاؤ روکنے اور اموات کو بڑی حد تک کنٹرول کرنے میں مدد ملی ہے۔تاہم، وہ عیدالاضحیٰ پر احتیاط کی اپیلیں بھی کرتے رہے۔ تو اس ضمن میں یہ بھی تو دیکھا جائے کہ جب خود حکومتی ذمّے داران دعویٰ کرنے لگیں کہ کورونا وائرس پر تقریباً قابو پا لیا گیا ہے، تو لوگوں میں یہ خیال تو پیدا ہوگا کہ اب احتیاط کی ضرورت ہی کیا ہے؟ پھر اگر اُنہیں یہ بھی بتایا جائے اور وہ بھی مستند سائنس دانوں اور ڈاکٹرز کی طرف سے کہ اوّل تو اس قوم میں کوئی خاص بات ہے کہ اس پر کورونا کا اثر بہت معمولی ہے یا یہ کہ یہاں کا کورونا وائرس بہت کم زور ہے، تو پھر عوام کو کیا ضرورت پڑی کہ وہ اس وبا کو خاطر میں لائیں۔ 

اِس وقت دنیا بھر کے رہنما سیاست ختم کرکے کورونا کو شکست دینے میں مصروف ہیں۔ جی۔20 اور یورپی یونین کے ایجنڈے دیکھیں تو اُن میں صرف کورونا سے مقابلے اور معیشت کی بحالی کا ذکر ہے۔ اُنھوں نے750 بلین ڈالرز اپنے رُکن ممالک کی مدد کے لیے رکھے ہیں۔مگر یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے یہاں کبھی پی آئی اے کے جعلی لائسینس اہم ترین ہوجاتے ہیں، تو کبھی چینی، آٹا بحران شہ سرخیوں میں ہوتا ہے۔اور کبھی اوورسیز پاکستانیوں کی دُہری شہریت بحث کا موضوع بنتی ہے۔اردگرد دیکھیں، تو عالمی ادارۂ صحت جنوبی ایشیاء کو کورونا کا ہاٹ اسپاٹ بتا رہا ہے۔بھارت میں دس لاکھ کیسز ہیں، جو ہر بیس دن بعد دُگنے ہو رہے ہیں۔بنگلا دیش کے اعداد وشمار قابلِ اعتبار نہیں سمجھے جارہے۔ایران کے صدر ٹیلی ویژن خطاب میں بتا چُکے کہ مُلک میں ڈھائی کروڑ افراد کورونا سے متاثر ہیں۔ اُنہوں نے اعتراف کیا کہ عوام کو جو نرمیوں کے ذریعے چُھوٹ دی گئی، اُس کے بدترین نتائج سامنے آرہے ہیں۔ ویسے سرکاری طور پر وہاں 14 ہزار اموات ہوچُکی ہیں۔

ہمارے مُلک میں شروع ہی سے مختلف مفروضوں پر تجربات ہوتے رہے۔ہر شخص کی خواہش اور دُعا ہے کہ حکومت کے دعوے ٹھیک ثابت ہوں، کیوں کہ یہ سیاست نہیں، بیماری ہے، جو عام آدمی ہی نہیں، حکم ران طبقے کو بھی نشانہ بناتی ہے۔وزیرِ اعظم اور اُن کی معاشی ٹیم کہتی ہے کہ کورونا نے مُلکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔یہ بات درست ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ کورونا سے قبل بھی معیشت دو فی صد سے نیچے آچُکی تھی اور ریوینو شارٹ فال اربوں ڈالرز میں تھا۔ نون لیگ کا 5.8 فی صد کی ترقّی کا زمانہ تو اب خواب ہی بن چُکا ہے۔

وہ معاشی جادوگر، جو بیرونِ مُلک سے معیشت ٹھیک کرنے اور نیا پاکستان بنانے آئے تھے، بیانات اور تسلّیاں تو روز دیتے ہیں، لیکن اس منفی اعشاریہ چار پر پہنچنے والی مُلکی معیشت کا کوئی حل تلاش کرنے میں اب تک ناکام ہیں۔پھر روز روز کے لایعنی بحث مباحثے قوم کا بے تحاشا وقت ضائع کررہے ہیں۔لوگ روز کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں، یعنی ساری قوم ہی دیہاڑی پر لگ گئی ہے۔حکومت کوئی ایسا منصوبہ سامنے نہیں لا رہی، جس سے معلوم ہو سکے کہ آخر معیشت کی مضبوطی کی سمت کیا ہوگی۔وہ قرضے لے چُکی، سود کی ادائی بھی مؤخر ہوگئی، تو اب کیا صرف اسی پر خوش ہولیں یا حکومت معاشی عمل آگے بڑھانے کے لیے کوئی قدم بھی اُٹھائے گی؟بائیس کروڑ آبادی کے مُلک کو دنیا میں نمایاں طور پر اپنا معاشی کردار ادا کرنا چاہیے۔ 

دنیا کو پتا ہونا چاہیے کہ اس قوم نے قرضے لینے دینے کے علاوہ بھی معاشی ترقّی میں اپنا حصّہ ڈالنا ہے۔قوم ہر وقت کسی مسیحا کی تلاش میں رہتی ہے اور شاید وہ ایک’’ مسیحا‘‘ لے بھی آئی، مگر پھر کوئی لاٹری کے نکلنے کا انتظار ہے، جس کا دُور دُور تک کوئی امکان نہیں۔تیل بھی نکل آیا، تو کچھ نہ ہوگا اور سونے کے ذخائر نکالتے نکالتے عُمر بیت جائے گی۔بہتر یہی ہوگا کہ سیاسی اور معاشی ماہرین مل کر کوئی حل تلاش کریں۔ہر وقت قومی عظمت کے خالی خولی گیت گانے سے کچھ نہیں ہوگا۔اب تو بیرونِ مُلک سے بھی لوگ واپس آرہے ہیں، یعنی راستے کُھل نہیں رہے، بند ہورہے ہیں۔

تازہ ترین