• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زیب کا تعلق فاٹا سے ہے۔ زیب نے ہر چند آج کل کا فینسی نقاب اوڑھا ہوا تھا مگر بہت اچھی انگریزی بول رہی تھی۔ میری زبان میں کھجلی ہوئی پوچھا ”تم ہو کہاں سے“ بولی فاٹا سے۔ پوچھا رہتی کہاں ہو۔ بولی حیات آباد میں۔ تعلیم کہاں سے حاصل کی۔ بولی پشاور یونیورسٹی سے۔ پھر تم بس پیدا تو فاٹا میں ہوئیں۔ پلی بڑھی تو پشاور میں ہو۔ بولی کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ ہمارے علاقے میں تو نہ کالج اور نہ لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج ہے۔ اب ذرا اطمینان ہوا کہ محض پیدائش کے باعث زیب فاٹا سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہی حال ہماری کامنا پرشاد کا ہے۔ پیدائش ان کی پٹنہ سے ہے مگر اردوئے معلیٰ بولتی ہیں اور ہر سال گزشتہ پندرہ برس سے مشاعرہ دلّی میں ایسے کراتی ہیں کہ پیشہ ور مشاعرہ باز اور شاعر گر، دانتوں میں انگلیاں دبا لیتے ہیں۔ ایک شاعر جو کہ امریکی تھا مگر لکھنوٴ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، کمال کلاسیکی انداز میں غزل پڑھ رہا تھا۔ اس طرح جاپانی استاد نے اپنے علاقے میں اردو کی وسعت کی تصویر پیش کی اور اپنے تلفظ پر خوب داد پائی۔ کینیڈا سے ذکیہ غزل اور امریکہ سے مونا شہاب نے، مشہور ترنم میں کلام پیش کیا البتہ حارث خلیق کی شستہ نظمیں بڑی توجہ سے اسی طرح سنی گئیں جیسے جاوید اختر کی نظموں پر مجمع بالکل سکوت میں تھا۔
دلّی جب جاؤ تو کوئی نہ کوئی نوراتری ہو رہی ہوتی ہے۔ پوچھا کہ بھئی وہ تو کڑوا چوتھ اور دسہرے کے ساتھ آتی ہے۔ یہ کونسی نوراتری ہے۔ خواتین بولیں ”یہ نوراتری سات دن کی ہوتی ہے۔ اس دوران ہم اناج نہیں کھاتے البتہ دہی، پانی اور فروٹ کے علاوہ چائے بھی پی سکتے ہیں۔ یہ دراصل شیو کی خدمت کے لئے ہوتی ہے۔ میری سمجھ میں اتنا آیا کہ ڈائٹنگ کا یہ مذہبی طریقہ ہے کہ ہماری صحافی دوست روچیکا بھی یہ روزے رکھ رہی تھی۔ ہمارے ساتھ بیٹھی سیب تو کھا رہی تھی مگر پکوڑے نہیں۔ صرف روچیکا ہی نہیں گوری بھی کہہ رہی تھی کہ ہمارے گھر میں کبھی انڈے یا گوشت کی اجازت نہیں ہے۔ ہم کباب بھی بناتے ہیں تو چنے کی دال اور پالک میں سوجی ملا لیتے ہیں۔ کسی سبزی کے کھانے کی ممانعت نہیں ہے۔ البتہ لہسن اور پیاز نہیں کھاتے۔ پوچھا نئی پود یعنی آپ کے بچے بھی یہی کرتے ہیں۔ بولیں وہ تو فاسٹ فوڈ ریستورانوں پرجاتے ہیں مگر گھر میں نہیں لاتے ہیں۔
اب کمرے میں علی جاوید، زبیر رضوی، ارجمند آراء، حارث، ایرنا اور روچیکا، بیٹھے پاکستان اور ہندوستان میں الیکشن کے منظرنامے پر گفتگو کررہے تھے۔ جس طرح پاکستان میں مذہبی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے یہی حال ہندوتوا اور آر ایس ایس نے ہندوستان میں کیا ہوا ہے۔ ہم سب لوگ اپنے اپنے ملکوں کی انتہا پرستی کی بات کررہے تھے اور افسوس کررہے تھے کہ کب عقلمندی اور ہوشمندی ہم دونوں ممالک پر حاوی آئے گی۔ کب اسمگلر اور گرہ کٹ، انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ سارے دوست ہم زبان تھے کہ یہ تو ہونے سے نہیں رہا کہ پڑھے لکھے اور سفید پوش لوگ اسمبلیوں میں آئیں۔ آئے تو جمشید دستی ہی ہوں گے ورنہ پھر اسلام آباد میں جو لوگ الیکشن لڑ رہے ہیں، وہ تو مانا پڑے چور ہیں پھر بھی ان پر کلین اپ سوئپ لگا دی گئی ہے۔ کیا شان ہے ریٹرننگ افسروں کی۔
گزشتہ تین ماہ ہوئے جب ایک لڑکی کے ساتھ دلّی میں زیادتی کی گئی تھی۔ یہ واقعہ پورے ہندوستان اور پاکستان کو لرزا گیا تھا۔ جب ہم نے جلوس نکالا تو اس پر انڈیا کی عورتیں بڑی خوش ہوئیں اور دوسراہٹ کے ان اقدامات کو بہت سراہا گیا مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ہندوستان میں ایسے سانحے بہت ہونے لگے ہیں۔ حتیٰ کہ منگیتر بھی لڑکی سے کسی بات پر بدلہ لینے کیلئے دوستوں کے ساتھ مل کر، لڑکی کو مشروب پلاکر زیادتی کر کے سڑک پر چھوڑ جاتے ہیں۔ سول سوسائٹی شور مچاتی ہے، قانون بنانے والے حرکت میں آتے ہیں مگر حادثات میں کمی نہیں آتی، یہی حال پاکستان کا بھی ہے۔
سب ہندوستانی دوست یہ سن کر خوش ہوئے کہ غیر ترقی یافتہ علاقوں سے عورتیں الیکشن میں حصہ لینے کیلئے کھڑی ہو رہی ہیں۔ بادام زری، نصرت بیگم اور ایک سندھی عورت۔ یہ سن کر بھی وہ لوگ خوش ہوئے کہ عورتوں کے ووٹ اگر کاؤنٹ کئے جائیں کہ پتہ تو چلے کہ آخر شعور کتنا پھیلا ہے۔ کونسی صنف نے زیادہ ووٹ ڈالے ہیں۔ البتہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر وہی بیگمات ہوں گی جنہیں پچھلے پانچ سالوں میں اہمیت دی گئی تو ارجمند بولی آپ کیا کر رہی ہیں، شور مچائیں۔ جب بتایا کہ ان فہرستوں کو چھپا کر اور دبا کر رکھا گیا ہے تاکہ ردعمل سامنے نہ آئے تو سب ہاتھ ملتے رہ گئے۔ موضوع بدلنے کو روچیکا نے پوچھا ”بسنت منائی جارہی ہے، میں نے جب نفی میں سر ہلایا تو سب لوگوں کے منہ سے ”ہائے“ نکلی پھر ہر ایک لاہور کی خوبصورت بسنت کو یاد کرنے لگا۔ اب تو کامنا بھی آگئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں بہت سے گیندے کے پھولوں کے ہار تھے۔ وہ ہم سب کو پہنا کر فوراً ایرنا کے ساتھ حسین صاحب کے بنائے ہوئے بیک ڈراپ کو مشاعرے کی نشست میں لگانے کے لئے بھاگی بھاگی گئی۔ ابھی کامنا کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس پر پلستر چڑھا ہوا تھا مگر وہ دھن کی پکّی ایک ہاتھ میں چھڑی پکڑے اور دوسری ٹانگ لنگڑاتی چل رہی تھی۔ یہ اس کی محنت ہی تھی کہ جس کے باعث کئی وزیر، کئی جج خاص کر اردو کے رہنما جسٹس کا ٹجو محفل میں موجود تھے۔
میرے منہ سے نکل گیا کہ شاید بنگالی مارکیٹ کی چاٹ کھانے کا موقع نہ ملے۔ کامنا کا یہ سننا تھا فوراً بنگالی مارکیٹ کے دہی بڑے، چاٹ، آلو کی ٹکیاں اور قلفیوں کا اہتمام کیا گیا تاکہ صحافیوں سے ملاقات کے دوران ان مزیدار چیزوں اور چاٹوں کا لطف اٹھایا جا سکے۔ ہمارے ساتھ ایک وفد اور گیا تھا یہ لوگ نوجوان افسر تھے اور تجارت کے باہمی معاملات کو طے کرنے کے لئے جارہے تھے۔ بہت پُراعتماد خاتون بھی ان میں شامل تھی جس نے واپسی میں کہا کہ ہم لوگ کب تک فوج اور سیاست دانوں کی گیدڑ بھبھکیوں میں الجھے رہیں گے۔ بہت قربتوں کو روک لیا گیا، اب کچھ واقعی کام کرنا پڑے گا۔ مجھے جو نوجوان نسل سے توقعات ہیں وہ ستارے بن کر چمکنے لگیں۔ ایئرپورٹ پر جب میں نے زبیر رضوی کا مرتب کردہ رسالہ ”ذہن جدید“ کھولا تو اردو کے اس دیوانے کی کارکردگی پر رشک آیا۔ ایسے چند سر پھرے لوگوں نے انڈیا میں اردو کا نام اور کام بہت پھیلایا ہے۔
تازہ ترین