• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک وقت تھا جب میں غیرملکی شہریت لینے کو اچھا نہیں سمجھتا تھا، میرا خیال تھا کہ اپنے وطن کی شہریت چھوڑ کر یا اُس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے ملک کی وفاداری کا حلف اٹھانا ایک بےحد نا معقول بات ہے جس کی کوئی توجیہہ بیان نہیں کی جا سکتی لیکن بارہ اکتوبر 1999کی شام کو میرے یہ خیالات تبدیل ہو گئے۔ اُس روز میں نے سوچا کہ کیا ہمارے مقدر میں یہی سب کچھ لکھا ہے؟ ہمارے پاس ایک ہی زندگی ہے اور ہم میں سے ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مکمل آزادی کے ساتھ یہ زندگی گزارے اور اپنے بچوں کے محفوظ اور بہتر مستقبل کیلئے کسی بھی ملک میں سکونت اختیار کرلے۔ سو، میں نے بھی اپنے ملک کی شہریت چھوڑنے کو برا بھلا کہنا ترک کر دیا مگر اِس رجحان کی حوصلہ افزائی بہرحال مجھ سے نہیں ہوئی۔ تاہم گزشتہ دو برسوں میں میرے خیالات میں مزید تبدیلی آئی ہے۔ اب میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اپنا ملک چھوڑنا قطعاً معیوب بات نہیں بلکہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ لوگ، جنہوں نے ہجرت کی اور مغربی ممالک کی شہریت حاصل کرکے وہیں سکونت اختیار کر لی، خاصے دانشمند اور دور اندیش تھے/ہیں۔ اِن تارکینِ وطن نے درست اندازہ لگایا کہ اُن کے ملک کے مسائل کبھی ختم نہیں ہوں گے، یہ کشتی جس گرداب میں پھنسی ہے اُس سے نکلنا کم ازکم ایک زندگی میں تو ممکن نہیں لہٰذا اِس زندگی کو ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ اپنا بوریا بستر سمیٹو اور بال بچوں سمیت امریکہ، برطانیہ یا یورپ ہجرت کر جاؤ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِن لوگوں کو یہ فیصلہ کرنے کا پورا حق حاصل تھا اور وقت اور حالات کے مطابق اُن کا یہ فیصلہ درست بھی ثابت ہوا۔

سوال مگر یہ ہے کہ کیا ایسا شخص، جس نے سوچ سمجھ کر پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ، گرین کارڈ، رہائشی اجازت نامہ یا شہریت حاصل کر رکھی ہو،کسی کلیدی عہدے کا اہل ہو سکتا ہے جہاں اسے قومی سلامتی یا اِس نوعیت کے دیگر اہم امور کے بارے میں فیصلے کرنے ہوں جن کا براہِ راست تعلق پاکستانی عوام کی زندگیوں اور ان کے مستقبل سے جُڑا ہو؟ قانون اِس ضمن میں خاموش ہے یعنی قانوناً دہری شہریت کے حامل کسی شخص پر ایسی کوئی پابندی نہیں البتہ رُکن پارلیمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف پاکستانی شہری ہو۔ یہ تو ہوا قانونی موقف،مگر کیا اخلاقی طور پر بھی یہ درست بات ہے؟ اِس کا جواب ذرا ٹیڑھا ہے۔ تارکینِ وطن کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اُتنے ہی محب وطن ہیں جتنے کہ باقی پاکستانی، ہم نے فقط سفری سہولیات اور زندگی میں آسانی پیدا کرنے کی خاطر مغربی ممالک کے پاسپورٹ وغیرہ رکھے ہوئے ہیں وگرنہ ہمارا دل جگر تو اب بھی لاہور کراچی ہے، یہ گرین کارڈ اور پاسپورٹ تو فقط رسمی لوازمات ہیں، یہ ملک سے محبت کا پیمانہ نہیں، ہماری محبت کا اِس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہر سال ہم اپنے ملک میں اربوں ڈالر کا زر مبادلہ بھیجتے ہیں، پاکستان میں جائیداد خریدتے ہیں، سال میں دو چکر لگاتے ہیں، اِس مٹی کو چومتے ہیں ،اِس ملک میں تو پہلے ہی قحط الرجال ہے، ہنر مند پاکستانیوں کی کمی ہے، اب اگر تارکین وطن کوبھی منہا کر دیا تو پاکستان کے پلے کیارہ جائے گا! اِن میں سے کچھ دلائل خاصے کمزور ہیں مگر فی الحال ہم انہیں من و عن تسلیم کر لیتے ہیں کیونکہ مقدمہ تارکینِ وطن کیخلاف نہیں، مقدمہ تو یہ ہے کہ کیا دہری شہریت کا حامل شخص پاکستان میں کسی کلیدی عہدے پر تعینات کیا جانا چاہئے؟ اِس بات کا جواب خود انہی تارکین وطن نے دیدیا ہے اور یہ قصہ نہایت دلچسپ ہے۔

قصہ یہ ہے کہ یہ تمام پڑھے لکھے لوگ باہر بیٹھ کر پاکستان کے حالات پر بہت کڑھتے تھے، اِن کا خیال تھاکہ ہمارا ملک کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے، یہ لوگ نہ صرف کرپٹ ہیں بلکہ نالائق بھی ہیں، انہیں پتا ہی نہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے، دنیا میں اسمارٹ شہربنائے جا رہے ہیں، موبائل ایپس کے ذریعے نظام مملکت چلایا جا رہا ہے، ترقی کی منازل طے کی جا رہی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ چند اجڈ اور انگوٹھا چھاپ سیاست دانوں کے چنگل سے ہی آزاد نہیں ہو پا رہے، نہ جانے کب نالیوں کا افتتاح کرنے والے سیاست دانوں سے ہمیں نجات ملے گی! اورپھر نجات کا وہ دن آگیا جب اِن فارن کوالیفائڈ متددین کی سنی گئی، کسی کو ڈبلیو ایچ او سے بلایا گیا تو کسی کو گوگل سے لیکن مکافات عمل دیکھئے، جب اِن لوگوں کا مسائل سے واسطہ پڑا تو آٹے دال کا بھاؤمعلوم ہوا، انہیں پتا چلا کہ مسائل نہ صرف گمبھیر ہیں بلکہ اِن کا حل اُس وقت تک نا ممکن ہے جب تک بعض دوسرے معاملات نہ درست کر لیے جائیں اور یہ دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جن میں گنجل ہیں اور یہ گنجل اُس وقت تک نہیں سلجھائے جا سکتے جب تک ڈور کا سرا ہاتھ میں نہیں آتا اور یہ ڈور کا سراکہاں تلاش کیا جائے، کسی کو معلوم ہے اور نہ کسی میں دم کہ معلوم کر سکے!اِن تمام بھول بھلیوں کے باوجود کچھ نہ کچھ کام ہو سکتا تھا مگر لولا لنگڑا میڈیا چین نہیں لینے دیتا حالانکہ ابھی اِس میڈیا نے ایسا کچھ نہیں کیا جو وہ ’کرپٹ سیاست دانوں‘ کے ساتھ کرتا تھا مگر اِس کے باوجود مِس گوگل اور مسٹر ڈبلیو ایچ او کی طبیعت پر گراں گزرا۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ یہ ہم کس چکر میں پھنس گئے ہیں ! ’مس گوگل‘ کے پاس سنگا پور کا پاسپورٹ تھا، انہوں نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ پاسپورٹ چھوڑنا ہے یا نکبت و افلاس کے مارے ملک کی خدمت کرنی ہے ۔کسی نے انہیں غالب کا مصرع سنایا ہوگا’’ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھاویںگے کیا‘‘ چنانچہ فیصلہ سنگا پور کے پاسپورٹ کے حق میں ہو گیا، رہ گیا ملک، تو وہ بیچارہ مِس گوگل کے بغیر بھی چل رہا تھا اور چلتا رہے گا۔ جب آپ سوچ سمجھ کر اپنے وطن کی شہریت پر کسی دوسرے ملک کے پاسپورٹ، گرین کارڈ، رہائشی اجازت نامے یا امیگریشن کو فوقیت دیتے ہیں اور وقت آنے پر اپنے اِس فیصلے پر مہر تصدیق بھی ثبت کرتے ہیں تو پھر ابہام اور بحث کیسی!میں دہری شہریت رکھنے والوں کو بالکل غلط نہیں سمجھتا لیکن میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اِن لوگوں کو اپنی دہری شہریت کے ساتھ کلیدی عہدوں پر فائز رہنے کا حق بھی ہونا چاہئے، یہ لوگ اپنے اِس حق سے خود دستبردار ہوئے ہیں لہٰذا کوئی دوسرا شخص اُن کے اِس حق کی وکالت کیسے کر سکتا ہے!

تازہ ترین