• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگست بارشوں کے ساتھ یادوں کی آندھیاں بھی لیکر آتا ہے ۔یادیں آنسوئوں کی برسات لاتی ہیں۔ میں پھر مال گاڑی کے اس کھلے ڈبے میں پہنچ جاتا ہوں جہاں چلچلاتی دھوپ میں، میں اپنی ماں کی گود میں دوپٹے کی چھائوں میں ہوں ۔باہر بلوائیوں کا شورہے۔ میری منزل اپنی مادر وطن کی آغوش ہے۔

۔۔۔۔۔

بچپن سے ان قافلوں کی تصویریں ۔فلمیں دیکھتا آرہا ہوں جو ہندوستان کے مختلف علاقوں سے پاکستان کی طرف گامزن ہیں۔ لٹے پٹے اپنی ساری دنیا پوٹلیوں میں سر پر اٹھائے بیل گاڑیاں۔تانگے۔ ٹرینیں۔ ٹرک۔

نقشِ ہجرت ہیں جن کی تصویریں

میں بھی ان قافلوں میں شامل تھا

اور میرے دل سے نکلتی ہوئی آواز:

مال گاڑی کا وہ کھلا ڈبہ

ان دنوں جنتوں میں شامل تھا

ہماری مال گاڑی تلواروں۔کرپانوں۔ بندوقوں۔ بلوائیوں کے سینے چیرتی ہوئی مغلپورہ ٹریک پر رکی تھی۔ پھرمجھے وہ مہاجر کیمپ یاد پڑتا ہے ۔ جہاں ہر صبح ہمارے بزرگ سامنے ایک کوٹھی سے ایک معزز خاتون کو اپنے دفتر روانہ ہوتے دیکھتے عقیدت سے کہتے کہ یہ علامہ اقبال کی صاحبزادی ہیں۔

یہ یاد اپنے دل میں بسائے لاہور سے گجرات۔منڈی بہائو الدین۔ بالآخر جھنگ شہر میں برسوں سے لیے رہا ہوں۔ پھر اعلیٰ تعلیم اور صحافت سے وابستگی ۔ لاہور اور 1967 سے کراچی یہ تصور محو نہیں ہوتا ہے ۔اب چند ہفتوں سے نہ جانے کیوں میں اس جستجو میں الجھ گیا ہو کہ ان مہاجر کیمپوں کی مصدقہ دستاویزات کہیں محفوظ ہیں یا نہیں۔ حکومت پاکستان نے کوئی سلسلہ شائع کیا ہو۔ پہلا مہاجر کیمپ کہاں قائم ہوا ۔پہلا مہاجر قافلہ کب پہنچا۔ گاڑیاں کہاں کہاں سے چلیں۔ پیدل کون کون آیا۔ مغربی بنگال۔ بہار سے مشرقی پاکستان پہنچنے والے۔ مشرقی پاکستان میں کیمپ کہاں کہاں تھے۔ مغربی پاکستان میں پنجاب میں یہ کیمپ کس کس شہر میں تھے۔ سندھ میں کس کس مقام پرمہاجرین کا انصار نے خیر مقدم کیا۔کیمپوں میں کیا نظم و نسق تھا۔ کون انچارج ہوتا تھا۔ سرکار ی ملازم کیا کیا فرائض انجام دیتے تھے۔ رضا کار کہاں کہاں سے آتے تھے۔ کیمپوں میں خوراک کا اہتمام کیسے ہوتا تھا۔ یہ کیمپ کب تک قائم رہے۔ آخری کیمپ سے مہاجر کب رخصت ہوئے ۔

اپنے گھر میں تو مجھے سید مصطفیٰ علی بریلوی کی مرتّبہ’’ 1947 کے آنسو‘‘ ملی۔ جس میں پورے ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی داستانیں ہیں۔قائد اعظم کی تقاریرو بیانات پر مشتمل دستاویز میں 12 ستمبر1947 قائد اعظم امدادی فنڈ برائے مہاجرین کے لیے اپیل ملتی ہے۔ ’’مشرقی پنجاب دہلی اور ہندوستانی مملکت کے دوسرے حصوں میں ہمارے لوگوں پر جو ظلم و ستم توڑا گیا۔ شدت کے لحاظ سے اس کی شاید ہی کوئی نظیر ہو۔ اس کی وجہ سے پاکستان اپنے قیام کے فوراً بعد زبردست مسائل سے دوچار ہوگیا۔ اب ہمیں اپنے ان لاکھوں بھائیوں کی امداد کرنے کے بارے میں سوچنا ہے جو اس مصیبت سے دوچار ہیں۔قوم اس بات سے آگاہ ہے کہ اس مقصد کے لیے کابینہ کی ایک ہنگامی کمیٹی کی تشکیل کی جاچکی ہے ۔جس کا روزانہ اجلاس ہوتا ہے اور ایک علیحدہ وزارت برائے مہاجرین تارکین وطن اور بحالیات قائم کردی گئی ہے۔ ہم نے تہیہ کرلیا ہے کہ اس زبردست کام کو سر انجام دینے اور ساری دشواریوں پر قابو پانے کے لیے ملک کے تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لایا جائے گا۔

مہاجر کیمپ میرے ذہن پر چھائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ 73سال میں مجھے خود بھی یہ کام کرلینا چاہئے تھا۔ میں اس پر نادم ہوں۔ معافی کا خواستگار ہوں۔ جدید ڈیجیٹل وسیلوں کو میں نے کھنگالا سب سے زیادہ معلومات جرنل آف دی رائل ایشیاٹک سوسائٹی کی جلد 28شمارہ 2میں الیاس چٹھہ کی رپورٹ سے میسر آئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دوسرے ملکوں میں سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر تحقیقی اداروں نے تقسیمِ ہند کی کہانیاں جمع کی ہیں۔اس رپورٹ میں بھی امریکی برطانوی صحافیوں کے اگست اور ستمبر 1947والٹن۔ گنڈا سنگھ والا۔ حنفیہ اسکول کیمپ کی کہانیاں موجود ہیں۔ ہماری ان مائوں بہنوں کے قصے ہیں جو بیوگی کے صدمے سے دوچار ہوئیں۔ بے شمار یتیموں کے دل خراش واقعات ہیں۔ حکومت پاکستان کی کسی مستند دستاویز کا حوالہ نہیں ہے۔

میں نے برادر بزرگ ڈاکٹر خالد مسعود کو زحمت دی۔ انہوں نے کئی رابطے ارسال کیے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین طارق بنور ی سے بھی رابطے میں ہوں۔ ڈائریکٹر سرچ اینڈ ڈیولپمنٹ زین العابدین بھی مدد کررہے ہیں۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کئی کتابوں کے نام بتائے ہیں۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید اب محتسب اعلیٰ کے میڈیا ایڈوائزر ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر ندیم شفیق ملک کی طرف رہنمائی کی ۔ڈاکٹر موصوف نے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے شاہدرشید اور قائد اعظم اکیڈمی کے مجید فاروقی کا حوالہ دیا۔ان دونوں نے بھی میری دستگیری کی ہے ۔نیشنل آرکائیو سے بھی رابطے کی کوشش کررہا ہوں۔میرا ارادہ ہے کہ اگست کی تحریروں میں 73سال پہلے کی یادیں تازہ کروں۔ ہندوستان سے لٹ پٹ کر آنیوالوں کے مصائب سے بھی نئی نسل کو آگاہ رہنا چاہئے اور پنجاب۔ بلوچستان۔ کے پی۔ مشرقی پاکستان اوربالخصوص سندھ میں پاکستان بننے سے پہلے سے پاکستانیوں نے جس طرح انصار کا کردار ادا کیا۔ وہ مصیبتیں بھی نقش ہونی چاہئیں اور وہ محبتیں بھی جو ہم مہاجرین کو ملیں۔یہ عظیم مملکت پاکستان ہماری ماں ہے ۔اس کی آغوش میں ہمیں تحفظ اور امان حاصل ہے۔ یہ اشرافیہ مافیا کی لوٹ مار کے باوجود سر سبز ہے ۔خوشحال ہے۔ میں تلاش میں ہوں کسی مستند دستاویز کے۔ آپ بھی میری مدد کریں۔ غیر ملکی محققین نے بھی شکوہ کیا ہے کہ مہاجرکیمپوں کے سلسلے میں انہیں سرکاری دستاویزات نہیں ملتی ہیں۔ کیا یہ دستاویزات ہیں ہی نہیں یا یہ آن لائن دستیاب نہیں ہیں ۔کسی یونیورسٹی نے یہ تحقیق کی یہ تو پی ایچ ڈی کا موضوع بھی بن سکتا ہے۔

تازہ ترین