نامور ہدایت کار قمر زیدی نہایت ہنس مکھ اور گول مٹول ، بھارتی اداکار گوپ سے ان کی مشابہت تھی۔ انہوں نے فلمی کیریئرکا آغاز بہ طور اسسٹنٹ، کراچی میں بننے والی فلم ’’انوکھی‘‘ سے کیا۔ زیر تبصرہ فلم فلم’’رشتہ ہے پیار کا‘‘ بہ طور ہدایت کار قمر زیدی کی ٹریبیوٹ مووی ہے۔ پہلی فلم جس کی شوٹنگ لندن، بیروت، تہران، قاہرہ اور دمشق میں ہوئی۔
فلم کی کاسٹ میں زیبا، وحید مراد، ترنم، حنیف، فریدہ، اقبال یوسف، نہال، شیدا امام، نجمہ ناز، سنتوش رمل، خدابخش شیرازی، کمال ایرانی، ناز بیگم، گرج بابو اور گڈوشامل تھے۔ فلم ساز ادارہ ہائی لائٹ فلم، فلم ساز اقبال بٹ، ہدایت کار قمر زیدی، کہانی سلیم احمد، موسیقار ناشاد، عکاس شفق مرزا، تدوین اقبال اختر، صدابندی رفعت قریشی، نغمہ نگار فیاض ہا شمی اور شاہد دہلوی تھے۔ 6؍اکتوبر 1967ء مین سنیما کوہ نور کراچی، نگینہ لاہور (سلور جوبلی) میں نمائش ہوئی۔
فلم کی کہانی کا مرکزی خیال قانون کا ایک مجرم اور ایک محافظ ہے۔ ایک ایمان دار جج سعید الدین (کمال ایرانی) نے امان (نہال) نامی مجرم کی سفارش قبول کرنے سے انکارکردیتاہے۔ امان جیل سے فرارہوکر گھر آتا ہے، لیکن اس کی بیوی وحیدہ جاچکی تھی، اسے مجرم کی بیوی کہلانا پسند نہ تھا۔ امان انتقاماً جج سعیدالدین کی بیٹی ناہید کو اٹھا کر لے جاتا ہے۔ جج کی بیوی اس صدمے سے مر جاتی ہے۔ جج کا نوکر خدا بخش ایک لاوراث بچے کو لاتا ہے، جج اسے اپنا بیٹا بنا کر پالتا ہے۔
امان جج کی بیٹی ناہید کو یتیم خانے میں داخل کرادیتا ہے۔ عشرت (وحید مراد) جج کے گھر میں پل کر جوان ہوتا ہے۔ ناہید کو ایک مالدار رحم دل عورت سروری بیگم یتیم خانے سے اپنے گھر لاتی ہے، جہاں وہ جوان ہوتی ہے۔ سروری بیگم کے حالات خراب ہوجانے پر ناہید جوان ہو کر پی آئی اے میں ملازمت کے لیے جاتی ہے ۔امان جو اسمگلروں کے گروہ کا سرغنہ ہوتا ہے۔ اب سلطان بن کر ایک معزز آدمی تھا۔ ایک روز شہرکا ایک لوفر رئیس زادہ اختر (حنیف) ناہید (زیبا) کو چھیڑتا ہے، تو عشرت اور غوری (اقبال یوسف) آکر اختر اور اس کے ساتھیوں کی پٹائی کرتے ہیں۔
عشرت اور ناہید کی یہ پہلی ملاقات تھی ،دونوں میں محبت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جج صاحب ایک روز عشرت کو لندن بھیجتے ہیں ، جہاز میں عشرت کی ملاقات ناہید سے ہوتی ہے، جہاز بیروت لینڈ کرتا ہے، ایک اسمگلر عشرت کو وہاں پر پولیس کے ذریعے پھنسوا دیتا ہے، تو عشرت ایک ایئر ہوسٹس کو اپنا کارڈ دیتا ہے کہ یہ ناہید کو دے دینا۔ عشرت کا ایک دوست اسے پولیس سے چھڑوا دیتا ہے ، عشرت لندن جاتا ہے، ناہید کو فون کرتا ہے دونوں ملتے ہیں اور لندن میں پیار کا رشتہ قائم کرتے ہیں، پھر دونوں پیرس جاتے ہیں ، خُوب گھومتے ہیں، پھر کراچی آتے ہیں۔
اختر سلطان کو ناہید کی ماں کے پاس اپنے رشتے کے لیے بھیجتا ہے۔ سروری بیگم رشتے سے منع کرکے سلطان اور اختر کو نکال دیتی ہے۔ اختر جج کے پاس آکرناہید اور اس کی ماں سروری بیگم کی برائیاں کرتا ہے، جج سروری بیگم کے گھر آکر دونوں ماں بیٹیوں کو برا بھلا کہتا ہے، عشرت پر پابندی لگادیتا ہےکہ وہ ناہید سے نہیں ملے گا۔ غوری اپنی محبوبہ فریدہ کے ذریعے اختر کو شراب پلاکر اس سے ساری باتیں اگلواتا ہے۔
جج صاحب کو بھی وہ باتیں سنواتا ہے۔ جج صاحب سروری بیگم اور ناہید سے آکر معافی مانگتے ہیں۔ دوسری جانب سلطان اخترکو یقین دلاتا ہے کہ تمہاری شادی ناہید ہی سے ہوگی۔ ایک روز اختر اور اس کے ساتھی ناہید کو اغوا کرتے ہیں عشرت اور غوری ان کا تعاقب کرکے انہیں خوب مارتے ہیں۔ پولیس آکر اختر اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیتی ہے۔ عشرت اور ناہید کی شادی طے ہوجاتی ہے۔ شادی والے دن سلطان آکر ناہید کو اغوا کرکے لے آتا ہے۔
غوری اور ڈسوزا (شیدا امام) کی کار سڑک پر کھڑی ہوتی ہے، تو ایک کار سے ناہید کی چیخیں سنکر غوری بدمعاشوں کا تعاقب کرتاہے اور ڈسوزا پولیس کو بلانے جاتا ہے۔ عشرت بارات لےکر آتا ہے، لیکن ناہیدکے اغوا ہونے پر غصے سے سلطان کی دی ہوئی پرچی والے ایڈریس پرجاتا ہے۔ اتنے میں خالہ آتی ہے، جو وحیدہ تھی، اس نے جج کو بتایا کہ عشرت کو میں تمہارے بنگلے کے باہر چھوڑ گئی تھی۔ عشرت سلطان کے اڈے پر پہنچ کر ان بدمعاشوں سے لڑتاہے۔
غوری بھی ساتھ دیتا ہے۔ جج ، خالہ بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ خالہ کودیکھ کر سلطان کہتا ہے، بیگم تم زندہ ہو، وحیدہ کہتی ہے، ہاں میں زندہ ہوں، عشرت تمہارا بیٹا ہے۔ عشرت کہتا ہے، ایک قاتل اور ملک دشمن میرا باپ نہیں ہوسکتا۔ یتیم خانے کی خالہ یہ راز بھی بتاتی ہے کہ ناہید جج کی بیٹی ہے۔ غوری بھی آجاتا ہے اور عشرت ناہید کی شادی ہوجاتی ہے۔ سلطان ، اختر، شیرازی اور دیگر بدمعاش کو پویس گرفتار کرلیتی ہے۔ اس فلم کے ذریعےہدایت کار قمر زیدی نے بیرون ملک فلم بندی کو تو متعارف کروادیا، مگر اس فلم کے اسکرپٹ پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔ کہانی میں بھی کافی جھول تھا۔ زیبا کو بیرون ملک پی آئی اے کی ایئر ہوسٹس کی ٹریننگ کے لیے بھیجا گیا، مگر پھر پوری فلم میں اس کا کوئی لنک بھی پی آئی اے سے نہ دکھایا گیا۔ فریدہ کے کردار کو صرف کلب ڈانسر تک محدود کیا گیا۔
اقبال یوسف کی کامیڈی مناسب رہی۔ زیبا اور وحید مراد کی جوڑی چوں کہ اس وقت مقبول جوڑی تھی، تو اس مقبولیت کو مدنظر رکھ کر انہیں چند رومانی گانوں کے سواکوئی خاص کام نہ لے سکے۔ فلم کی عکاسی بھی کوئی خاص نہ تھی۔ بیرون ملک کی لوکیشن کو صحیح طور پر ایکسپوز نہ کرپائے، یُوں لگتا تھا کہ بعض مناظر صرف لائبریری شوٹ ہیں۔ ہاں صرف ایک گانا ’’معصوم سا چہرہ‘‘ اسے فلمانے میں فوٹو گرافر شفن مرزا نے محنت کی، جو اس گانے میں نظر بھی آتی ہے۔
موسیقی کا شعبہ سب سے کام یاب رہا۔ فلم کے تمام گانے موسیقار ناشاد نے بہترین معنوں میں کمپوز کیے، جو اپنے دور میں مقبول بھی ہوئے۔ اس فلم کا پہلے نام ’’یہ رشتہ ہے پیار کا‘‘ تھا، جسے بعد میں صرف ’’رشتہ ہے پیار کا‘‘ کردیا گیا۔ اس فلم کا شمار وحید مراد کی ایک نایاب فلم کے طور پر آج ہوتا ہے، ان کے پرستار اس فلم کو ہر قیمت پر اس فلم کا پرنٹ خریدنے کے لیے آج بھی تیار ہیں کہ کسی طرح اس کا کوئی پرنٹ کہیں مل جائے۔