• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخِ اقوامِ عالم کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ابتدائے آفرینش میں انسان فطرت سے انتہائی قریب تھا۔ پھر ارتقائی عمل کے نتیجے میں صنعتی انقلاب نے جست لی، تو شہری زندگی کو فروغ ملا، لیکن ساتھ ہی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت شہروں اور گائوں کی تقسیم خوف ناک حدود کو چھونے لگی، جس کے نتیجے میں انسان اور فطرت کے درمیان پڑنے والی دراڑ نے بیگانگی اور سرمائے کی بالادستی کی ایک غیر فطری دنیا تخلیق کی۔ اس کا ایک اور اظہار ذہنی اور جسمانی محنت کے درمیان مکمل علیحدگی ہے، وہ غیر صحت مند سماجی نسل پرستی جو علم کے جدید پنڈتوں کو محنت کشوں اور غریبوں سے الگ کرتی ہے، جو موت کے لیے نیوکلیئر ہتھیار اور وائرس کےعلاوہ دنیا میں لاکھوں خطرناک کیمیکلز استعمال کرکے کرئہ ارض کو تباہی کی طرف مسلسل دھکیل رہی ہے اور ایک خاص قسم کی ’’چِپ‘‘ تیار کرکے دنیا کے عام انسانوں کو روبوٹ بنانے کی کوشش میں مگن ہے۔ 

یہ سلسلہ اتنا آگے نکل چکا ہے کہ حیاتیاتی اور گیسوں کی جنگوں میں تبدیل ہورہا ہے اور خدشہ ہے کہ اس سے انسان تو انسان، اس کی پرچھائیاں تک جل جائیں گی۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس قسم کا سائنسی عمل اپنی ضد میں تبدیل ہوگیا ہے، جوں جوں شہر پھیلتے، گنجان آباد ہوتے جارہے ہیں، آلودگی بڑھ رہی ہے، تو ایسے میں کورونا جیسی کئی وبائی بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ جس سے ایک ڈرائونے خواب جیسی کیفیت پیدا ہو رہی ہے کہ مٹھی بھر سپر سرمایہ دار اور اُن کے اسیر سائنس دان اپنی الگ دنیا بسانے کے چکّر میں سب کچھ برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اگر موجودہ بحران اور خلفشار برقرار رہا اور انسان، انسان نہ بنا، شعور کی کمی اور جہالت میں اضافہ ہوتا رہا، تو یقیناً بنی نوع انسان کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔ بدقسمتی سے اس تہذیب کی گھٹن زدہ یک طرفہ مصنوعی طبقاتی زندگی روز بروز حاوی ہوتی جارہی ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری، جرائم میں اضافہ، نشہ آور ادویہ، منافع خوروں کے حربے مزید برآں، اصل ادویہ کا عارضی علاج کم، سائیڈ افیکٹس زیادہ۔ یہ غیر انسانی معاشرہ بنانے کا عمومی عمل 21ویں صدی میں کروڑوں لوگوں کا منہ چڑا رہا ہے۔ایک محتاط اندازےکے مطابق، اب تک دنیا میں چند لاکھ نہیں بلکہ 50 ملین یعنی 5کروڑ کے قریب کیمیکلز دریافت ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ کیمیکل ABS+RAET ایبسٹریکٹ سروس کے نام سے منسوب ایجینسی 1956ء میں قائم کی گئی، جس کا کام نئے دریافت ہونے والے کیمیکلز کو رجسٹر کرنا تھا۔ تاہم اس کے افعال میں ان کیمیکلز کے جملہ مضر اثرات کی تفصیل اور جانچ شامل نہیں، لہٰذا اس حوالے سے محققین اور ماہرین کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ اس ہولناک خطرے کی طرف توجّہ دیں۔ 

جس نے عہدِ تشویش میں پہلے ہی بہت نقصان پہنچا دیا ہے، لیکن چوں کہ اس دریافت اور اس کی مارکیٹنگ میں حد سے زیادہ منافع ہے اور واشنگٹن کے ایوانوں میں بیٹھنے والے ’’کرونی کیپٹلزم‘‘ کے حامی کیمیاوی کمپنیوں کی مضبوط لابی کے اسیر ہیں، تو اسی سبب ان کے مضر اثرات پر پابندی نہیں لگائی جاتی۔ اس ضمن میں محققین کو اس لیے بھی خصوصی توجّہ دینے کی ضرورت ہے کہ آج دنیا کیمیکلائزڈ ہوچکی ہے۔ اس تناظر میں یہ دیکھنا ہوگا کہ دنیا جو پہلے ہی فارماسوٹیکلز ملٹی نیشنل کمپنیز کی وجہ سے وائرسز کا شکار ہے، عالمی پالیسی ساز اس کے خوف ناک اثرات سے واقف ہوتے ہوئے بھی چند سکّوں کے عوض اسے مزید آفت زدہ کیوں کررہے ہیں۔ 

ہول ناک کیمیکلز اور ان کی تباہیوں پر دنیا کے سائنس دان اور دانش وَر نظرثانی کیوں نہیں کرتے۔ اگر دنیا نے ازسرِ نو اس بارے میں نہ سوچا، تو خاص طور پر انسانی اور زرعی شعبے اَن سنی بیماریوں کا شکار ہو کر بنی نوع انسان کے مستقبل کو تاریک کردیں گے۔ اب جب کہ کورونا وائرس نے یہ موقع فراہم کیا ہے، تو انسان کا فوری طور پر انسان بن جانا ہی بہتر ہوگا۔ مزیدبرآں، اگر ہم نے نئے سرے سے سوچنے کی کوشش نہ کی اور ذہن نشین نہ رکھا کہ ’’فورمیگا ایگروکیمیکل پروڈکشن‘‘ گلوبل کمپنی اکیلے ہی منافعے درمنافعے کے لیے دنیا کی زراعت کو تباہ کردے گی اور مصنوعی بیجوں کی دنیا کو فروغ دے گی، جس کے نتیجے میں ان مصنوعی منہگے بیجوں کو کچھ عرصے بعد زمین قبول نہیں کرے گی، تو پھر کوئی اور کھیل رچایا جائے گا۔

آج سے دس پندرہ ہزار سال پہلے فطرت تمام زندگی رکھنے والوں کے لیے وافر خوراک پیدا کرتی رہی ہے، یہاں تک کہ جب آبادی تیزی سے بڑھنے لگی، تب بھی فطرت کی پیداوار کا توازن برقرار رہا۔ صنعتی انقلاب کے بعد سرمایہ کاروں نے زراعت کے لیے منافعے کی خاطر اپنی جانب سے جدّت کے نام پر غیر ضروری طور پہ کیمیاوی کھادیں اور کرم کش ادویہ متعارف کروائیں اور صرف75 سال میں دنیا کی زرخیز ترین اراضی کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ اسی ماحول کے تناظر میں فضا، آبی حیات سب متاثر ہوئے۔ یہ آغاز تھا، لیکن منافع خوروں، سٹّے بازوں، اسمگلرز، ذخیرہ اندوزوں کی دنیا عروج کی جانب بڑھتی رہی۔ دیہات میں قلت پیدا کرنے اور قیمت بڑھانے کے لیے امریکا جیسے ملک نے گندم کی زائد پیداوار کو سمندر میں پھینکوانا شروع کردیا۔ 

بلاشبہ، قدرت کی طرف سے کسی چیز کی کمی نہیں، لیکن بندئہ نافرمان نے ذاتی مفاد کے لیے صارف کے جانوں سے کھیلنا شروع کردیا۔ پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے، تو 1960ء کے عشرے میں سیاست پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا آج سے کہیں زیادہ غلبہ تھا۔ اس لیے وہ زراعت میں اتنا ہی پیدا کرتے، جس سے وہ برآمد کرکے زرمبادلہ کماسکیں یا پھر زرعی خام مال کی ضرورت کے مطابق پیداوار بڑھاتے۔ عارضی پیداوار حاصل کرنے کے لیے ایسا کیمیکل استعمال کرتے، جو بیرونی کمپنیوں کے لیے منافع بخش تھا اور اسی کے نتیجے میں اراضی کرم کش ادویہ اور کیمیکلز کی عادی ہوگئی، جس کے منفی اثرات کی وجہ سے نئے نئے کیڑے مکوڑے پیدا ہونے لگے۔ چوں کہ پاکستانی فیصلہ ساز سائنسی پیچیدگیوں سے نابلد تھے، لہٰذا یہ سلسلہ نسل درنسل چلتا رہا۔ نہ جاگیردارانہ نظام ختم ہوا اور نہ جمہوریت چل سکی۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ کیمیکلز خریدنے کے لیے حکومتیں بڑے کاشت کاروں کو سہولتیں بھی فراہم کرتیں۔

عارضی طور پر زیادہ پیداوار کی ہوس نے عقل کے اندھوں کو یہ سوچنے سمجھنے سے عاری کردیا کہ مستقبل میں اراضی مزید بیرونی کھاد کی مانگ کرے گی، فصل آلودہ ہوگی اور اس سے کئی بیماریاں لاحق ہوں گی۔ سو، مذکورہ کیمیکل فیکٹریز پاکستان میں تعمیر کی گئیں، اب صورتِ حال یہ ہے کہ ان کے فضلے اور ویسٹ سے دریا، نہریں اور سمندر آلودہ اور آبی اور انسانی زندگیاں تباہ ہورہی ہیں۔ 

صدیوں سے نامیاتی قدرتی کھاد اور طریقہ کاشت سے کروڑوں انسان مستفید ہو رہے تھے اور اب قرضے، منہگائی اور بیماریوں نے زرعی معاشرے کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ اگر ہمارے فیصلہ ساز، دانش مند ہوتے، تو آج فی ایکڑ پیداوار کم ہوتی، نہ ہماری اراضی زہرآلود ہوتی اور نہ ہی دیہی زندگی میں غربت ڈیرے ڈالتی۔ مروج جاگیردارانہ نظام اور بیرونی کمپنیوں کی ملی بھگت سے تباہ کاری آج ہمارا مقدر بن گئی ہے۔ دوسری طرف غیر ضروری جدید کاشت کے نام پر زیادہ لاگت اور آلودگی نے پانی کے علاوہ عوامی صحت کے مسائل بھی پیدا کردیئے ہیں۔

مذکورہ صورتِ حال کے تناظر میں پاکستان کے پالیسی سازوں کو سوچنا ہوگا کہ مغرب کے انسان دوست دانش وَر مسلسل اس بات کی نشان دہی کررہے ہیں کہ پوری دنیا کیمیکلز میں ڈوب چکی ہے اور اس کا تجارتی طور پر بے دریغ استعمال ہورہا ہے۔ امریکا کی انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے مطابق، تقریباً ایک لاکھ کیمیکلز کمرشل استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔کینسر پر تحقیق کرنے والے امریکی اداروں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر کیمیکلز مختلف قسم کے کینسرز کا سبب بنتے ہیں۔ 

ان میں 300 کیمیکلز ایسے ہیں، جو بانجھ پن، بچوں کی پیدائش میں نقائص اور ان کی نشوونما پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ نیز، بچّوں میں جو کمی اور کجی پائی جاتی ہے، اس کی وجہ بھی ہر شے میں کیمیکلز کا بے دریغ استعمال ہے۔ اس کے باوجود امریکا کی ریگولیٹری اتھارٹی اس مفروضے پر کام کرتی ہے کہ جب تک کہ مضر ثابت نہ ہوجائیں، تمام کیمیکلز درست ہیں۔ یقیناً یہ احمقانہ مفروضہ ہے، جب کہ دنیا کے بیش تر سائنس دانوں کا مؤقف ہے کہ اب تک صرف دس فی صد کیمیکلز کی جانچ پڑتال کی گئی ہے اور سبھی کو معلوم ہے کہ یہ کتنے خطرناک ہیں، پھر طاقت وَر لابی اس کی جانچ میں سرمایہ استعمال کرکے انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ 

اس لیے ان کا ٹیسٹ درست نہیں ہو پاتا۔ اس وقت چھے ملٹی نیشنلز کیمیکلز کارپوریشنز دنیا کی 85 فی صد تجارت پر اجارہ داری رکھتی ہیں اور کرم کش ادویہ کی ترسیل بھی یہی کمپنیز کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ کیمیکلز انسانی جسم پر کسی بھی شخص کی صحت اور عمر کے مطابق اثر انداز ہوتے ہیں۔ بچّوں پر ان کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ ان کے اثرات ماں کے پیٹ میں پرورش پانے والے بچّے پر بھی ہوتے ہیں۔ کینسر، آٹزم، دَمہ اور مختلف الرجیز زیادہ تر بچّوں ہی کو لاحق ہوتی ہیں۔ واضح رہے کہ امریکا میں بہت سی پروٹیکشن ایجنسیز بنائی گئیں، لیکن کوئی بھی کیمیکلز کے مضبوط لابی کا کچھ بگاڑ نہ سکی، کیوں کہ ان کے حامی اقتدار کے ایوانوں میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں، جن کے نزدیک انسان سے زیادہ قدر، دولت اور منافعے کی ہے۔انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کا مؤقف ہے کہ مارکیٹ میں اب بھی 95 فی صد ایسے کیمیکلز ہیں، جن کا معمولی ٹیسٹ بھی نہیں ہوا۔ ایک سروے کے مطابق، ہر روز 42 ارب پائونڈ کے کیمیکلز امریکی مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں اور ان میں کسی کی بھی جانچ پڑتال نہیں ہوتی اور یہ مختلف قسم کے سرطان کا باعث بن رہے ہیں۔ مگر فارماسوٹیکلز کمپنیز اور بڑے ڈاکٹروں کی کمائی اور منافعے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 

یہ بھی یاد رہے کہ امریکی فیڈرل الیکشن میں کیمیکلز کمپنیز کروڑوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ ڈائوایکسن ایک ایسا کیمیکل ہے، جس سے جگر کا کینسر لاحق ہوسکتا ہے، لیکن افسوس ناک امر ہے کہ 80 سال سے کیمیکلز کے مضر اثرات پر سائنسی مطالعے کے باوجود ان پر پابندی نہیں لگائی جاتی۔ ایک کیمیکل، جس کا نام ایٹرازائن (ATRAZINE)ہے۔ یہ اگر پانی میں مل جائے، تو نر مچھلی یا مینڈک، مادہ ہوجاتے ہیں۔ 2004ء میں یورپی یونین نے اس پر پابندی عاید کرنے کی کوشش کی، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سپر سرمایہ داروں اور صنعت کار مافیا کے سامنے بڑی ریاستیں بھی بے بس دکھائی دیتی ہیں، تو پاکستان ان کے سامنے کیا وقعت رکھتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے عالمی سطح پر عوام میں نہ صرف شعور بے دار کیا جائے بلکہ نیوکلیئر اسلحہ اور کیمیکلز کے خلاف بھرپور تحریک چلائی جائے، بصورتِ دیگر دنیا کا ہر انسان اَن سنی، اَن جان بیماریوں کا شکار ہوجائے گا۔

تازہ ترین