کراچی (اسٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے کے الیکٹرک سے کراچی میں لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے سے متعلق جمعرات کو مکمل ٹائم لائن ، عدالتوں سے حکم امتناع کی تمام تر تفصیلات بھی طلب کرلی ہے اور بجلی پیدا کرنے کی استعداد، موجودہ پیداوار اور بجلی کی طلب سے متعلق تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ کرنٹ لگنے سے جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں ان تمام کی ایف آئی آر میں سی ای او کے الیکٹرک کا نام ڈالیں۔
کسی بھی علاقے میں ایک منٹ بھی بجلی بند ہو تو نیپرا فوری نوٹس لے، جب سے کے الیکٹرک نے ٹیک اوور کیا ہے سسٹم تباہو ہوگیا، کے الیکٹرک کا پورا حساب لیا جائے، کتنی تاریں لگائیں، ہر قسم کا حساب لیا جائے۔
مزید ریمارکس میں کہا ہے کہ ہم عدالت سی ای او کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سمیت کے الیکٹرک کا مکمل آڈٹ بھی کراسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کے الیکٹرک کی بدترین کارکردگی پر ریمارکس میں کہا ہے کہ ہم غیر ملکی مالکان کی ذہنیت سے بخوبی واقف ہیں وہ ہمارے شہریوں کو غلام اور کچرا سمجھتے ہیں، انکے تو اونٹ کی قیمت بھی پاکستانی سے زیادہ ہے۔
بجلی کا کوئی نہ کوئی فالٹ ہوتا ہے توبندا مرتا ہے سڑکوں پر بھی لوگ مرے ہیں، شہر بھر سے کے الیکٹرک نےارتھ وائر ہی ختم کردیئے، گزشتہ رات میں کراچی آیا تو شارع فیصل کی پوری لائٹیں بند تھیں۔
علاقے میں پورا اندھیرا تھا اور لوگ گھروں سے باہر بیٹھے تھے،چیف جسٹس نے سی ای او کے الیکٹرک کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کراچی والوں کو بھاشن مت دیں، ایک منٹ کیلئے بھی بجلی بند نہیں ہونی چاہیے سمجھے آپ ؟
منگل کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں کراچی میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور کرنٹ لگنے سے ہلاکتوں کے معاملے کی سماعت ہوئی۔
کمرہ عدالت میں سی ای او کے الیکٹرک اور چیئرمین نیپرا سمیت اعلیٰ حکام پیش ہوئے دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کے الیکٹرک کی کارکردگی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سی ای او کے الیکٹرک کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔
جسٹس گلزار احمد نے نیپرا کو ہدایت کی کہ کراچی والوں کی بجلی بند کرنے پر جتنا جرمانہ لگتا ہے لگائیں، کے الیکٹرک نے کراچی میں کچھ بھی نہیں کیا، پورے کراچی میں ارتھ وائر کاٹ دی ہیں، ان کے خلاف قتل کے کیس بنائیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ساری انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کریں۔دورانِ سماعت عدالت نے کے الیکٹرک کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ بھی کراچی کے شہری ہیں آپ کو بھی احساس ہونا چاہیے، ابھی 21 لوگ مرے ہیں، آپ جا کر اسٹے لے لیتے ہیں اس پر کے الیکٹرک کے وکیل نے کہا کہ لوگ گھروں میں مرے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ بجلی کا کوئی نہ کوئی فالٹ ہوتا ہے تو بندا مرتا ہے، سڑکوں پر بھی لوگ مرے ہیں، ارتھ وائر ہی ختم کردیے۔چیف جسٹس پاکستان نے کے الیکٹرک کے وکیل سےمکالمہ کیا کہ ہم آپ کے غیر ملکی مالکان کی ذہنیت سمجھتے ہیں، وہ ہمیں غلام سمجھتے ہیں، وہ کچرا سمجھتے ہیں پاکستانیوں کو، ان کے تو اونٹ کی قیمت بھی پاکستانی سے زیادہ ہے۔
اس دوران چیف جسٹس پاکستان نے کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ ہونے پر چیئرمین نیپرا سے پوچھا کہ ان کا لائسنس معطل ہوجائے تو آپ کے پاس کیا متبادل ہے ؟ جب سے انہوں نے ٹیک اوور کیا ہے سسٹم کو تباہ کردیا ہے، یہ کون ہوتے ہیں آکر ہمیں کراچی والوں بھاشن دیں ؟
کہتے ہیں کراچی والے بجلی چوری کرتے ہیں ، یہ کون ہوتے ہیں یہ کہنے والے ؟ اس دوران کے الیکٹرک کے سی ای او نے عدالت کو بتایا کہ پچھلے 10 سال میں ڈھائی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے سی ای او کے الیکٹرک کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کراچی والوں کو بھاشن مت دیں، جتنی آپ نے سرمایہ کاری کی ہے ا س سے زیادہ نقصان کیا ہے۔
پتا ہے جب بجلی بند ہوتی ہے چھوٹے چھوٹے گھروں میں کیا حال ہوتا ہے ؟ عورتیں دہائی دیتی ہیں ان کا احساس ہے آپ کو ؟ آپ پوری دنیا میں ڈیفالٹر ہیں، بڑے بڑے جرمانے لگے ہیں۔