پاکستان کے اہل نظر کایہ دعوی کہ''ملک میں ایک ہمہ گیرتبدیلی ناگزیر ہے ، جو اسٹیٹس کو کی قوتوں کے مکمل جامد ہو نے کے باعث بر پا ہو کر رہے گی تو زرداری-یوسف حکومت کا اصل رنگ نکلتے ہی کرنے لگے تھے۔ نظام بد کے مزے اڑانے والوں نے اس دعویٰ کو ”انقلاب کا خواب “قرار دے کر جی بھر کر اس دعوے اور عوامی تمنا کا خوب مذاق اڑایا ۔ ملک پر مسلط چند خاندانوں کے تشکیل دیے گئے لاغر نظام حکومت و سیاست کو ہی ”مطلوب جمہوری عمل“ قرار دیا۔ اب جب کہ قانون و آئین کے رنگ میں رنگی تبدیلی آ رہی ہے تو بھی یہ اسے ناگزیر قرار دے کر تبدیلی کے لیے قوم کی بیدار ی میں کوشاں خاک نشینوں پر طنز و تشنہ کے تیروں کی بارش جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اب اسٹیٹس کو کے حواریوں کی حالت تو یہ ہے کہ وہ عوام کو استحصال کی چکی میں پیس دینے والے نظام کو ہی پاکستان کی واحد عملی حقیقت ( گراؤنڈ ریئلیٹی ) ہونے کا یقین دلا رہے ہیں کہ وہ اپنے حاصل شدہ ذاتی مفادات کے باعث اس کے پابند ہیں ۔ وہ تبدیلی کے عمل کی تائید اس لیے ہی نہیں کر سکتے کہ ان پر بے وفائی ، احسان فراموشی یا لوٹے ہونے کا الزام نہ لگ جائے ، پھر یہ بھی کہ تبدیلی آتی ہے تو وہ حاصل مفادات بھی کھو بیٹھیں گے ۔ یہ الگ بات ہے کہ تبدیلی کی مسلسل بھد اڑانے والا کوئی خوبصورت مبلغ بھی اب اپنی سابقہ روایتی پارٹی کا ٹکٹ نہ ملنے پرپریس ٹرائیکا(دل کی آواز ) کا گھونٹ بھی چڑھا لیں ۔ لیکن تبدیلی کی گٹھڑی سر پر اٹھائے خاک ساران پاکستان ان کی اس تنگ نظری کو رد کر کے تبدیلی کو ناگزیر ہی قرار دیتے رہے اور یہ مشورہ بھی کہ اس کی سمت متعین کر نے کی فکر کی جائے ، کیونکہ اسٹیٹس کوکی قوتیں خود کو با لآخر ٹوٹتا دیکھ کر آنے والی تبدیلی کا راستہ روکنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑیں گی ۔خاکسار اپنی اس رائے کو اس دعوے کے ساتھ پیش کر نے کی جرأت کرتا ہے کہ ملک گیر سطح پر ریٹرننگ آفیسرز نے سکروٹنی کے عمل میں جو مضحکہ خیز ، غیرسنجیدہ اور نااہلیت پر مبنی رویہ اختیار کیا، وہ آئین کی آرٹیکلز 62،63میں
امیدوار کے فقط صادق اور امین کی آئینی شرط کو بے اثر کر نے کے لئے نہیں بلکہ اس کی تضحیک کے لیے ریٹرننگ افسروں سے اختیار کرایا گیا ۔ کس نے ؟کس معاوضے پر یا کس حوالے سے ؟ اس کا جواب تلاش کرنا محققین اور صحافیوں کی پیشہ ور انہ ذمہ داری ہے ۔ واضح رہے کہ ریٹرننگ آفیسروں کے اس انتہا درجے کے منفی رویے کو بڑی معنی خیز ابلاغی معاونت بھی فراہم کی گئی ۔ صادق اورامین کی تشریح ، ٹیکس ، قرضوں ، ڈگریوں کے دستاویزی ریکارڈ کی روشنی میں آسان تر اور دستاویزات دستیاب ہیں ، بلکہ الیکشن کمیشن کو فراہم کی گئیں ۔ عدلیہ کو قانون و آئین کی تشریح اور اس کی خلاف ورزی پر فراہمی انصاف کے لیے دستاویزات ہی مطلوب ہوتی ہیں تو پھر صادق و امین کی تشریح کیوں ممکن نہیں ؟ اور اڑانے والوں نے کس منہ سے آئینی دفعات کے اس جزو کا مذاق اڑا کر اسٹیٹس کو کے 27ہزار میں سے 23ہزار درخواست دہندگان کو مشکوک ترین اور مضحکہ خیز سکروٹنی کے مرحلے سے نکلوا کر عوام کی نمائندگی کا اہل قرار دلوایا ۔ اگر پاکستان کو 65سالہ تاریخ میں پہلے سابق فوجی صدر کی گرفتاری عمل میں آئی ہے تو کیا یہ آئین و قانون کی خلا ف ورزی کیے بغیر آئی ہے ؟ یوسف رضا گیلانی کو وزارت اعظمی کے علاوہ عوام کی نمائندگی کے حق سے بھی پانچ سال کے لیے نااہل قرار دیا گیا تو کیا یہ آئین و قانون کے اطلاق کے بغیر ہوا ؟ یقینا عدلیہ نے یہ سزاآئین و قانون کی خلاف ورزی پردی ۔”کسی جنرل پر ہاتھ نہ ڈال سکنا“پاکستان میں شدت سے مطلوب قومی احتساب میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے ۔ آج جبکہ قانونی عمل شروع ہو نے کے باوجود پرویز مشرف کو تند و تیز تنقید کا نشانہ بنا کر خاندانی جمہوریت کے پرستار جمہوریت کے سب سے بڑے چمپئن بننے کے مقابلے میں شریک ہیں اور مشرف کے اچھے وقت کے ساتھی اسٹیٹس کو کی جماعتوں میں شریک ہو کر پھر انتخابی امیدوار بن چکے ہیں ، خاکسار جنرل (ر) پرویز مشرف کے رویئے کے اس پہلو کا معترف ہے کہ انہوں نے خود کو قانو ن و آئین کی عدالتوں میں پیش ہو نے کی ہمت و جرأت کا مظاہرہ کیا ۔
وہ یہ کہہ کر پاکستان لوٹے کہ ''میں عدالتوں کو فیس کروں گا اور قانون کی روشنی میں اپنا دفاع''۔ انہوں نے جو کہا ، وہ ویسا اب کر رہے ہیں ۔ ضمانت کی تنسیخ پر ان کے محافظوں کا بوکھلا کر انہیں جلدی سے ان کے فارم ہاؤس پر لے جانا ”فرار“ نہیں ۔ ملزم کا محافظوں پر اکتفا ہے ، وگرنہ وہ اپنے گھر سر عام نہ جاتے ، کسی ''محفوظ مقام ''کا رخ کرتے ، جس کے لیے پہلے سے کوئی خفیہ پلان بنا ہوتا ۔ قصہ مختصر یہ کہ مشرف نے ایک ایسے وقت میں خود کو آئین و قانو ن کے حوالے کر دیا ہے
جب پاکستان میں آئین و قانون کی حقیقی بالا دستی کا عمل کسی نہ کسی شکل میں حقیقتاً شروع ہو چکا ہے ۔ یوسف رضا گیلانی کا وزارت اعظمیٰ اور پانچ سال کے لیے انتخابی عمل میں شرکت سے محروم ہونا ، سوئس حکومت کو نیب کا با لآخر خط لکھنا ،راجہ پرویز اشرف کومشروط طور پر انتخابی امیدوار بننے کی اجازت کے بعد اب پرویز مشرف کی گرفتاری ، تھانے اور جیل میں پہنچانے سے تو یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ہمارے بیمار ملک کو اقبال کے خواب اور قائداعظم کے عزم کے مطابق پاکستان بنانے کے لیے قومی سطح کا جو حقیقی احتساب مطلوب تھا و ہ شروع ہو چکا ہے ۔ اگر سابقہ دور میں ہونے والے کسی جرم پر وقت کا طاقت ور ملزم ،سابق حاکم عدالتی کٹہرے میں آیا ہے تو ایسے وہ تمام سابقہ حاکم جن پر بغیر کسی قانونی کاروائی کے گلی محلوں اور میڈیا میں ملک توڑنے ، لوٹنے ، قومی پر چم جلانے ، اختیارات کے غلط استعمال سے اندھی مچانے ، ٹیکس چوری ، قرضے خوری ، جعل سازی ، ریاستی اور عوامی خدمات کے اداروں کو بر باد کر نے کے الزامات کی بارش ہو تی رہتی ہے ، انہیں اب عدالتوں میں آنا پڑے گا ۔
سوال یہ ہے کہ کون لائے گا ، قانون اور آئین تو یہ کہتا ہے کہ مشرف کے سیاسی تانگے (آل پاکستان مسلم لیگ ) میں بیٹھی سواریاں تو کیا کو ئی ایک عام قانون پسند شہری بھی یہ کار خیر انجام دے سکتا ہے ۔ جہاں تک اسٹیٹس کو کی طاقتوں کا سوال ہے ، وہ تو اس صورتحال سے بچنے کے لیے اند ر کیا ، کھل کر بھی متحدہو جائیں گی ۔ ایسے میں سابق صدر اور حالیہ ملزم مشرف اور ان میں فرق یہ ہوگا کہ سنگین الزامات میں گھرا سابق طاقت ور حکمران تو اپنی ”محفوظ جنت“چھوڑ کر تبدیلی کے عمل میں اپنا احتساب کرانے خود آگیا اور مجسٹریٹ کی عدالت میں بھی پیش ہو گیا ۔ وہ منہ بند ہو گئے کہ فوجی اسٹیبلیشمنٹ ایسا کبھی نہیں ہو نے دے گی۔ اب اگر اسٹیٹس کوء کے سر خیل خود کو بچانے کے لیے گٹھ جوڑ کرتے ہیں ، لوٹی دولت کا استعمال کرتے ہیں ، تبدیلی کے قانونی و آئینی عمل کے خلاف سازشیں کرتے ہیں تو وہ اپنے خلاف الزامات کی طویل فہرستوں میں نئے الزامات کا اضافہ کریں گے۔ لیکن یہ اب ناگزیر ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی وزارت اعظمیٰ اور انتخابی عمل میں شرکت سے محرومی ، راجہ پرویزاشرف کو انتخاب میں شرکت کی مشروط اجازت اور سوئس حکام کو شہرہ آفاق خط(واضح رہے کہ سوئس حکام کی خط پر کاروائی نہ کر نے کی وجہ صدر زرداری کو آئینی استثنی ہے جو ان کی صدارت ختم ہو تے ہیں ختم ہو جائے گا اور سوئس قوانین کے مطابق دوبارہ ساٹھ کروڑ ڈالر کی واپسی کے لیے خط لکھا جا سکے گا) لکھنے اور پرویز مشرف کی وطن واپسی اور تھانہ ،کچہری شٹلنگ کے بعد قومی احتساب کا وہ عمل شروع ہو چکا ہے جو حکمرانوں کی لو ٹ مار اور کرپشن میں لتھڑے پاکستان کو تمام پاکستانیوں کی فلاح کا امین ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“کے لیے مطلوب تھا ۔
اگرچہ مشرف کی وطن واپسی اور خو دکو قانون کے حوالے کر نے کی تشریح سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے طور پر کی اور اس کی خوب بھد بھی اڑائی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشرف نے آنے سے پہلے جو کہا وہ کر دیا ، ان کے یہ کر نے سے پاکستان میں شدت سے مطلوب ہمہ گیر اور بے رحم احتساب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ختم ہو گئی ، کہ کسی فوجی آمر حکمران کو عدالتی کٹہرے میں نہیں لایا جاسکتا۔ یہ رکاوٹ ختم کر نے پر اے مشرف تیرا شکریہ