• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید ترقی یافتہ اور نت نئی ٹیکنالوجی سے مزین دنیا اور اس میں موجود وہ ریاستیں جہاں ہر شے ناقابل تسخیر تھی اور وہ ممالک جنہیںدنیا پر حکومت کرنے اور سپر پاور ہونےکا گھمنڈ تھا جو دولت کے انبار سے زمین سے لے کر آسمان کی وسعتوں بلکہ خلاء پر زندگی کے دعویدار تھے موجودہ حالات میں صرف اپنی سالمیت اور بقا کی جنگ میں مصروف ہیں ان کے غروروتکبر کا انداز فکر اب تہس نہس ہوچکاہے۔ اک نظر نہ آنے والے کورونا نامی وائرس نے ساری دنیا کو ہلا کررکھ دیا ہے اور ان کے طبقاتی نظام پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے جس کے اثرات کرہ ا رض پر موجودہ بنی نوع انسان کے لئے ایسا سبق ہے جو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔

اس صورتحال میں آج کا نوجوان یکدم ’’گم سم‘‘ ہوگیا ہے۔ دنیا میں انسانی تہذیب کی پہچان تعلیم ہےاور موجودہ دور میں پوری دنیا کا تعلیمی نظام مفلوج ہوچکا ہے اور یہی حال پاکستانی نوجوان اور نسل نو کا ہے وہ خواب جس کی تکمیل سے وہ اپنی ذات، اپنے خاندان کے علاوہ معاشرے کے لئے بھی کچھ کرنا چاہتا تھا لیکن اب اس کے سامنے تاریک اندھیرا ہے۔ اس کے جو بنیادی مسائل ہیں وہ اس نوول کورونا وائرس سے متاثر ہورہے ہیں۔

2020ء سال اس لحاظ سے بہت زیادہ بدقسمت سال اب تک رہاہےکہ دنیا پرتعلیمی، معاشی اور سماجی میدان میں جمود کی سی کیفیت طاری ہے۔ پاکستان میں جب سے اس مہلک اورخطرناک وائرس کے اثرات نمایاں ہوئے ہیں جب سے لے کر اب تک تعلیمی ادارے، مدارس، جامعات اور دیگر تیکنیکی شعبہ جات مسلسل بند ہیں جس کی وجہ سےطالب علموں کو بہت زیادہ تعلیمی نقصان اٹھانا پڑ رہاہے۔ پرائمری تعلیم سے لے کرہائر ایجوکیشن تک کے نوجوان طلبا و طالبات متاثر ہیں۔

گزشتہ دنوں ہونےوالے تعلیم کے شعبہ کے اجلاس میں جو فیصلے سامنے آئے ہیں ان سے ان تمام قابل، ہونہار، محنتی اور یکسوئی کے ساتھ پڑھنے والے طالب علموں کی حوصلہ شکنی اور حق تلفی کی گئی ہے جس کا کوئی مداوا نہیں کرسکتا۔ جو حقیقی معنوں میں علم حاصل کررہے تھے جو صبح و شام، رات دن کتابوں سے وابستہ تھے نوٹس تیار کررہےتھے وہ بھی اس پالیسی کی لپیٹ میں آگئے۔ کاش یہ پالیسی صرف پرائمری کلاس تک یا مڈل کلاس تک ہی محدود رہتی۔ وہ بچے اور طالب علم جنہوں نے کبھی کتاب کی شکل نہیںدیکھی نہ کبھی اسکول جانے کی زحمت کی ہوگی جو صرف نقل اور رشوت پر یقین رکھتے تھے انہیں خود بخود نئی کلاسیں مل جائیں گی تو برملاکہا جائےگا یہ ’’کھلا تضاد‘‘ ہے۔ 

کب ہمارا تعلیمی نظام ایک پاکیزہ نظام میں تبدیل ہوگا۔ واقعی عقل دنگ رہ جاتی ہے اس وائرس کے ذریعہ قدرت اشارے دے رہی ہےکہ اب بھی سنبھل جائو اور راہ راست پر آجائو لیکن ہم اپنے معصوم طالب علموں کے مستقبل سے کھیلنے میں مصروف ہیں انٹر اور دیگر کلاسوں کے امتحانات بورڈ کوآن لائن انٹرنیٹ یا موبائل سروس کے ذریعہ اک خاص سسٹم کے ذریعہ امتحان لےسکتی ہےا ورفوراً ہی رزلٹ بھی فائنل ہوسکتاہے۔ کاش ایسی ایجوکیشن پالیسیاں بنائی جاتیں لفظ ’’پروموٹ‘‘ کو مزید ’’پروموٹ‘‘ کیا جارہا ہے۔

کالجز اور جامعات کے پرنسپل کو اس سلسلے میں ارباب اختیارسے بات چیت کرنی چاہئے ایک دوسرا المیہ یہ ہےکہ پاکستان کے کئی ہزار طالب علم غیر ممالک میں مختلف جامعات میں زیر تعلیم ہیں اور اپنی ہائر ایجوکیشن حاصل کررہےتھے زیادہ تر طلبہ انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس اور شعبہ طب اور ای کامرس سے منسلک تھے جو اس قدرتی وبا کووڈ 19 کی وجہ سے ہنگامی حالات کے پیش نظر واپس پاکستان آچکے ہیں یہاں آنے کے بعد وہ تذبذب کا شکار ہیںکہ ان کا مستقبل کیسا ہوگا؟

یہ اک سوالیہ نشان ہےکہ آیا وہ اسکالر شپ یاذاتی اخراجات پر تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اور اپنے شعبہ جات میں مہارت کی غرض سے غیر ملکی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے تھے کہ اچانک انہیںوہاں کی حکومتی پالیسی کے ذریعہ واپس پاکستان آنا پڑا۔ کیا وہ اپنی تعلیم مکمل کرپائیں گے؟یا پھر پاکستان کی کسی جامعات کے ذریعہ اپنی تعلیم مکمل کرسکتے ہیں کیونکہ یہاں کے تعلیمی نظام اور غیر ملکی تعلیمی نظام میں بہت ز یادہ فرق ہے وہاںہر چیز آن لائن اور میرٹ پر ہوتی ہے حتیٰ کہ آپ کی حرکات، سکنات تک کو پرکھا جاتا ہے جبکہ پاکستان کی چند جامعات کے علاوہ شاید کہیں ایسی سہولیات مہیانہیں ہیں۔ 

وہ طالبات اور طالب علم واپس آنے کے بعد اپنے گھروں میں محصور ہیں اور ڈبلیو ایچ او کی جاری کردہ احتیاطی تدابیرپر عمل کررہے ہیں اور آن لائن ایجوکیشن کے ذریعہ تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اس میں بھی کافی دشواریاں ہیں جس میں سفارتی تعلقات اور حکومتی سطح پر ممالک میں کوآرڈینیشن کے ذریعہ ان کی تعلیم کو مزید آگے چلایا جاسکتا ہے۔ اگر وہ پاکستانی تعلیمی نظام کے ذریعہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے خواہاں ہیں تو انہیں ازسر نوکافی مشکلات اور پریشانی کاسامنا کرنا پڑے گا۔

وائرس کی وجہ سےا نٹرنیشنل ڈپازٹ میں کمی کا رجحان پایا گیا۔ مختلف بڑی بڑی آئل کمپنیوں کو خسارے کا سامنا کرناپڑا بڑے بڑے صنعتی یونٹس بند کرنے پڑے بہت ممالک نے بڑے بڑے ادارے اور کمپنیوں کو محدود کردیا جس کی وجہ سے کئی لاکھ بلکہ دنیا کے 10؍ کروڑ سےز ائد افراد کو بیروزگار ہونا پڑا اور اس کے اثرات تمام ممالک پر پڑے اور جوافراد اور نوجوان روزگار سے وابستہ تھے اس کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی اپنی ملازمتوں سے فارغ کردیئے گئے اس میں کئی لاکھ پاکستانی نوجوان بھی شامل تھے۔ دیار غیر سے جس طرح پاکستان آئے ہیں تو ان کی اپنی قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر اپنے اپنے شعبہ جات میں روزگارفراہم کیاجائے گا، کیایہ ممکن ہے؟

ہماری حکومت اس سلسلےمیں ان کو کس طرح کا روزگار فراہم کرے گی۔پاکستان کے معاشی حالات پہلےہی ابتر ہیں یہاں پر بیروزگاری کا اژدھا منہ کھولے کھڑا ہے جامعات اور تعلیمی اداروں سے نکلنے والا نیا خون ہاتھوں میں مختلف شعبہ جات کی ڈگریاں لے کر مٹرگشت کرتے نظر آتے ہیں۔ بمشکل پرائیویٹ سیکٹر میں جان پہچان کیو جہ سےکچھ مناسب روزگار بمشکل 30، 35 ہزار تنخواہ کی جاب چند خوش قسمت کو ملتی ہے۔ 

پاکستانیوں کواس نازک موقع پر اپنے مستقبل کی پلاننگ بہت سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے کیونکہ جس طرح مغربی ممالک میں بیروزگاری کا طوفان آیا ہے اور وہ اپنی معیشت کو کئی سالوں تک مضبوط اور توانا نہیں کرسکتے تو پاکستان کس طرح بیرون ملک سے آنےوالے افراد اور نوجوانوں کو اک آئیڈیل ملازمت کس طرح فراہم کرسکتا ہے جبکہ پاکستان کے اندرونی معاشی، سیاسی، معاشرتی حالات میں مسلسل تنائو کی صورتحال ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی مربوط اور جامع پالیسی بھی واضح نہیں ہورہی ہے۔

لہٰذا بیروزگاری کے اس سمندر میں جو اچھے اور مستقبل کی باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے کاروبار اورا پنے شعبہ کے لحاظ سےکوئی جامع کام شروع کریں گےتووہ سکون کے ساتھ ملک کے معاشی حالات سے مقابلے کرتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہیں نوجوانوں کواپنی مدد آپ کے تحت اچھے مشوروں اور تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے اس کورونا وائرس سے بھی لڑنا ہے اور خود کو بیروزگاری کے سمندر سے نکلنا ہے۔ اس کے لئے اپنے اندر اتحاد، تنظیم اوریقین محکم کے اصولوں پر چلنا ہوگاتاکہ پاکستان کو اس مشکل صورتحال سے نکالا جائے۔

تازہ ترین