تسلیم اشرف
ہزاروں سال تک بنی نوع انسان یہ سمجھتا رہا کہ کائنات میں موجود مادی اشیاء یعنی مٹی، گارے، کائی، سنگ ریزوں پتھریلی چٹانوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ان کی نظر میں اس کی حقیقت صرف اتنی تھی کہ وہ ان اشیاء کو پناہ گاہ ،آواز بنانے، آگ حاصل کرنے، جنگل سے خوراک اور درختوں کے پتوں سے جسم ڈھانپنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن قدرت نے انسان کو نہ صرف پیدا کیا ہے بلکہ اندر تجسس اور عقل و شعور کی دولت سے بھی مالا مال کیا ہے۔ اسی جذبے کے تحت قدیم انسان کے اندر ’’فکر فردا‘‘ نے جنم لیا ،نتیجے میں ’’سائنسی شعور ‘‘ یعنی قوانین قدرت کا باقاعدہ مشاہدہ ،آگاہی اور فکری عمل کا آغاز ہو ا ،اس سفر میں سب سے پہلے یونان اٹلی روم کے اہل سائنس پیش پیش نظر آتےہیں۔
قرون وسطی یورپ کے لوگ یونانیوں کی علمی تحقیقات کو بھلا چکے تھے۔ جب 1515-1519کے دوران عربوںنے یونان کی سائنسی کتابوں کا ترجمہ کرکے ان کے علم و فن کو ازسر نو زندہ کیا تو اس بات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قدیم زمانے سے ہی لوگوں کو اس امر کی جستجو رہی کہ دنیاکے ظاہری تصورات کے پردوں کو چاک کرکے ’’مادی اشیاء‘‘ (وہ اشیاء جو کمیت رکھے اور جگہ گھیرے )کی حقیقت تک پہنچا جائے چناں چہ سائنسی علم کے قدیم ماہرین کے ذوق و شوق کا مرکز اور محور ’’مادی اشیا ء کی حقیقت کو افشاں کرنا تھا اور ساتھ ہی ان اشیاء کا حصول اوراستعمال تھا۔
جہاں تک ا ن اشیا ء کی حقیقت کا تعلق ہے تو اس پر زمانہ قدیم کی تقریباً تمام تہذیب یافتہ اقوام نے طبع آزمائی کی ہےلیکن نسبتاً موجودہ زمانے کی دریافت اور انکشافات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو لوگ سب سے زیادہ حقیقت کے قریب پہنچے وہ ’’یونان ‘‘کے چند فلسفی تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ ’’نظریہ ذرہ ‘‘ یا نظریہ ریزہ کا دھندلا سا خاکہ پیش کیا ،جس کی روشنی میں کائنات کے تمام مادی اشیاء کی ساخت اور ماہیت ان نہایت چھوٹے چھوٹے ’’ذروں‘‘ سے ہوتی ہے جن کو آنے والے معلم سائنس نے علمی سائنسی تفتیش کے بعد ’’جوہر‘‘ (Atom) کے نام سے منسوب کیا اور اس حقیقت کی تصدیق کی کہ اس ’’ذرہ ‘‘ یا جوہر کو مادی اشیا ء کی اکائی قرار دیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی ’’مادی اشیا ء‘‘ میں موجود یہ ننھا سا ’’ذرہ‘‘ یعنی ’’جوہر‘‘بظاہر بڑا پرسکون نظر آتا ہے لیکن اس کی بعض قسم بہت ہی حیران کن ہے۔ ’’ذرہ یا ’’جوہر ‘‘ یعنی ’’ایٹم‘‘ کیا ہوتا ہے ؟
جوہر اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ طاقتور دور بین سے بھی نظر نہیں آتا۔چند مثالوں سے ’’جوہر‘‘ کی ضخامت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سائنسی ماہرین نے ایک حیران کن تجربہ کر کے یہ معلوم کیا کہ سوئی یا پن کے سرے والی جگہ میں دس کروڑ سے بھی زیادہ جوہر سما سکتے ہیں ۔اگر تانبہ ،فولاد اور ٹن جیسی اشیاء کے جوہروں کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر ان کی قطار بنائیں تو ایک انچ کی لمبائی میں دس کروڑ ’’جوہر‘‘ سما سکتے ہیں۔ یقیناً اس بات کو قبول کرنے میں عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ سائنس بھی یہ سمجھتا ہے کہ مادی اشیاء کے جوہر ’’محیر العقول (Amazing) ہے لیکن سچ تو یہی ہے کہ ’’جوہر ‘‘ کسی ’’عنصر ‘‘ (مادی اشیا ء کی ایک بنیادی قسم ہے ۔یہ کیمیائی اشیاء سے کسی دوسری چیزوں میں توڑا پھوڑا نہیں جا سکتا) کا وہ چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ہوتا ہے جس کا وجود ممکن ہے، جس میں اس عنصر کے خواص موجود ہوتے ہیں۔ یعنی اگر ’’لوہا‘‘ ہے تو اس کے خواص برقرار رہتے ہیں۔
بیسویں صدی کے ابتدائی دنوں تک ان ’’جوہر‘‘ کو ’’ناقابل تقسیم‘‘ تصور کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے پہل ان ذرات کو ’’اجزا غیر منقسم ‘‘کا نام دیا گیا۔ اس کے علاوہ ابتدائی دورے کے بعض مکتب فکر کے خیال کے مطابق ’’جوہر‘‘ پتھر یا لوہے کی طرح کوئی ٹھوس ذرہ ہے اور یہ کہ ان ذروں سے تشکیل شدہ ’’مادہ ‘‘ کو توانائی میں اور توانائی کے مادّے میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن ’’سائنسی شعور ‘‘نے اپنی ارتقائی مراحل سےگزرنے کے بعد ’’جوہر‘‘ کے مطابق ہمارے قدیم نظریہ کو یکسر تبدیل کر دیا۔
اب ’’جوہر‘‘ کونہ صرف ناقابل تقسیم قرار دیا گیا بلکہ اس کی ساخت کو بھی ٹھوس جسم نہیں سمجھا جاتا ہے۔’’جوہر‘‘ ایک چھوٹے سے نظام شمسی سے مشابہت رکھتا ہے، جس طرح سورج کو مرکز مان کر اس کے گرد تمام سیارے گردش کر رہے ہیں۔ ٹھیک اس طرح جوہر ٹھوس ہونے کے بجائے خالی فضا پر مشتمل ہے۔ اور اس کے اندر ایک ’’نیوکلیس ‘‘ (قلب) بھی ہوتا ہے، جس کے گرد چھوٹے چھوٹے دیگر ذرات پائے جاتے ہیں گویا ’’جوہر کا ‘‘نیوکلیس ‘‘ کوئی منفرد شے نہیں ہے بلکہ اس کے گرد باریک باریک ذرات گردش کر رہے ہیں۔
طاقتور ’’خرد بین‘‘ سے جوہر آپ کو ایک ہال یا کمرے کے مساوی نظر آتا ہے لیکن اس کے بیچوں بیچ ’’مٹر‘‘کے دانے کی جسامت کے برابر ایک نقطہ یا تل جیسا ایک دھبا نظر آتا ہے۔ یہ ’’جوہر‘‘ کا ’’نیو کلیس‘‘ یعنی قلب ہوتا ہے اور اس کے بیرونی جانب باریک باریک ذرے گردش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، ٹھیک اس طرح جس طرح سیارے گردش کر رہے ہیں۔ یہ باریک باریک ’’ذرے ‘‘ الیکٹرون کہلاتے ہیں۔یہ منفی چارج ہوتا ہے اور دھات کے تاروں میں سے گزر سکتا ہے اور ہوا میں آزادانہ بھی رہ سکتا ہے۔ یہی ’’جوہر‘‘ کے وہ حصے ہیں جو روزمرہ کے ہزاروں متغیرہ عمل کو جنم دیتی ہے۔ مثلاً روٹی کے پکنے، ماچس کے جلنے، خوراک کے ہضم ہونے اور جسمانی نشوونما میں کردار ادا کرتے ہیں۔
اربوں الیکٹرون ( برقید) جو جوہروں کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں کسی بھی ریاست کو روزانہ بجلی فراہم کر رہی ہیں، ’’الیکٹرون‘‘ ‘‘ کے گرد ’’دائرہ نما‘‘ متعین راستوں پر گردش کرتی ہیں اس کا انحصار اس ’’جوہر‘‘ کی قسم پرہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’یورینیم‘‘ (یہ ایک خاص چمکدار بھاری چاندی کی طرح، سفید دھات ہوتا ہے) جو خام اشیاء کے طور پر ایک خاص قسم کی آتشی چٹانوں سے حاصل کیا جاتا ہے جوہری بھٹیوں کے لئے ایندھن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے لیکن اس کاحصول اور استخراج ’’معلم ارضیات‘‘ کے لئے نہایت دقت طلب اور صبر آزما کام ہوتا ہے۔ اس دھات کے جوہر بانوے (92) الیکٹرون ’’جوہر‘‘ کے نیوکلیس(قلب) کے گرد ایک متعین راستوں پر چکر لگاتے ہیں۔ ہر مختلف عنصر میں الیکٹرون کی تعداد مساوی ہوتی ہے۔
ایک دوسرا ذرہ جو ’’جوہر‘‘ کے ’’نیو کلیس‘‘ کے گرد گھومتے ہیں ۔ پروٹون کہلاتے ہیں۔ ان کی تعداد ان الیکٹرون کی تعداد کے برابر ہوتی ہے جو قلب کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ یہ مثبت چارج اور الیکٹرون سے کچھ بڑے ہوتے ہیں۔ ’’جوہر‘‘کے نیوکلیس میں ایک تیسرا اہم قسم کا ذرہ بھی پایا جاتا ہے۔جسے ’’نیو ٹرون ‘‘ کہتے ہیں چوں کہ یہ ذرہ تعدیلی ہوتا ہے، اس لئے معتدل کہا گیا ہے۔ اس میں کوئی برقی چارج نہیں ہوتا۔ یہ جوہر کے ’’نیو کلیس‘‘ سے جڑا ہوتا ہے۔ہائیڈروجن کے علاوہ باقی تمام اقسام کے ’’جوہر‘‘ میں یہ موجود ہوتا ہے۔
تمام جوہر کا وزن ایک دوسرے کے مساوی نہیںہو تا ،وزن کی مناسبت سے پیریڈک چارٹ ترتیب دیا گیا ہے ،جس میں ہلکے جو ہر کو ابتدا ء میں اور بھاری جو ہر کو آخر میں ترتیب دیا گیا ہے ۔ ہائیڈروجن گیس بہت ہلکی ہوتی ہے اس لئے یہ آسانی سے غباروں میں بھر لی جاتی ہے۔ ’’یورینیم ‘‘ عنصر نسبتاً سب سے بھاری ہے، اس وجہ سے قدرتی طور پر پائے جانے والے عناصر کی فہرست میں سب سے آخر میں رکھا گیا ہے۔ اس کے ہر ’’جوہر‘‘میں زبردست انرجی موجود ہوتی ہے۔
اس توانائی کے حصول کے لئے اس کے ’’جوہر‘‘ کو توڑا یا پھاڑا جاتا ہے (جوہر کو توڑنے یا پھاڑنے سے مراد یہ ہے کہ جب ’’نیو کلیس‘‘ میں بیرونی جانب سے ذرات سرایت کر جائیں یا اس کے داخلی جانب سے باہر آ جائیں یعنی وہ پراسرار قوت (Binding Force) جو نیو کلیس کے اجزا کو اپنے ساتھ پیوستہ رکھتی ہے ۔ایک جوہر کے نیو کلیس کو پھاڑنے سے انرجی کی جو مقدار خارج ہوتی ہے اس کی مقدار بہت ہوتی ہے لیکن ’’سائنسی شعور ‘‘ کی بدولت سائنس دانوں نےاربوں ’’جوہروں‘‘ کے قلب کو پھاڑنے اور ان کی توانائی کو قابو میں کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں۔ پھاڑنے یا توڑنے کے اس عمل کو انشقاق (Fission) کہتے ہیں ۔
آج کل ’’جوہر‘‘کو توڑنے کے لیےمختلف قسم کے ’’جوہر شکن‘‘ استعمال ہوتے ہیں مثلاً ’’ذراتی سرعت ( Particler Acceleration) جیسے ہی مربوطی قوت (Binding Force)کو ’’جوہروں‘‘ کے درمیان سے الگ کیا جاتا ہے، ویسے ہی ’’نیو کلیس‘‘ سے منسلک توانائی کا ایک حصہ حرارت اور شعاعوں کی شکل میں زبردست قوت کے ساتھ خارج ہوتی ہے۔ یہ خصوصیت ہر ’’جوہر‘‘ میں موجود نہیں ہوتی۔ فی الحال ان شعاعوں کا اخراج یورینیم 235تک محیط ہے۔یورینیم 235سے مراد 235یورینیم کا جوہری وزن ہے۔ اس کے ہر جوہر میں ایک ’’نیو کلیس‘‘ ہوتا ہے جن میں پروٹون ’’92‘‘ اور نیوٹرون کی تعداد ’’143‘‘ہوتی ہیں۔اس ’’نیوکلیس‘‘ کو سات مختلف قطر (Orbits) میں الیکٹرون کی ایک خاص تعداد احاطے میں لیتی ہے۔ نیو کلیس میں پروٹون کی تعداد 192کے مساوی ہوتا ہے۔
اس طرح جب ہم ’’پروٹون‘‘ اور ’’نیوٹرون ‘‘ کی تعداد کو آپس میں جمع کرتے ہیں تو یورینیم کا جوہری وزن (Atomic weight)، ’235‘‘ بن جاتا ہے۔ چوں کہ سائنسی اعداد و شمار کے مطابق پروٹون اور نیوٹرون کی تعداد معلوم کر لی گئی ہے اس لئے دیگر تمام عناصر کے ’’جوہر‘‘ میں ان دونوں کی تعداد کو آپس میں جمع کرنے سے کسی بھی ’’عنصر‘‘ کا جوہری وزن معلوم کیا جا سکتا ہے۔جو مادی اشیا ء کی حقیقت کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جب ’’یورینیم ‘‘ 235کے ’’نیو کلیس ‘‘ کو پھاڑا جاتا ہے تو پیوستہ توانائی زبردست قوت کے ساتھ تین مختلف اقسام کی شعاعوں کی شکل میں نکلتی ہے۔
پہلی قسم ’’الفا‘‘ (Alpha) شعاعیںکہلاتی ہیں۔ یہ شعاعیں دو پروٹون اور دو نیوٹرون پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جکڑے رہتے ہیں۔ دوسری قسم کی شعاعیں ’’بیٹا‘‘ (Beta) کہلاتی ہیں۔ یہ شعاعیں ’’الفا‘‘شعاعوں کی طرح ہوتی ہیں۔ اس قسم کے ’’جوہر‘‘ کو جوہر تابکار (Radiooative Element) کہا جاتا ہے۔ ان ’’جوہر تابکار ‘‘ سے توانائی کے حصول کا آغاز 1939کے اوائل میں آزاد دنیا کے ’’علماء طبیعیات‘‘ نے ’’جواہر ‘‘کے نیوکلیس سے انرجی حاصل کرنے کی تحقیقات اشتراک عمل سے کیا اور 1951میں ’’آئیڈیا ہو ‘‘ (Idih o) کے مقام پر اتنی بجلی پیدا کی گئی کہ ’’عمالہ ‘‘ ( ایندھن بھٹی) کی عمارت روشن ہو گئی۔
اسی دوران سائنس دانوں نے یہ بھی معلوم کیا کہ اگر ’’یورینیم 235 ‘‘کی فوری ضرورت نہ ہو تو اسے ایک طویل عرصے تک ذخیرہ بھی کیا جا سکتا ہے ،کیوں کہ یہ اس قدر سست رفتاری سے تحلیل ہوتی ہے کہ اس کی جو بھی مقدار لی جائے وہ 40(چالیس) سال تک صرف آدھی ضائع ہوتی ہے۔اب سائنس دان اس ’’توازن طاقت‘‘ کو فروغ اور برقرار رکھنے کے لیے منضبط شرح استعمال کرنے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ یہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اہل سائنس نے جہاں’’ جوہر تابکار‘‘ کی پنہاں انرجی کا کھوج لگایا وہیں ’’جوہر غیر تابکار‘‘ (Non Radiaootive Atoms)پر بھی توجہ مرکوز کر کے ’’مادی اشیا ء کی حقیقت کو پنہاں کر کے دور جدید کی زندگی کو مختلف کارآمد وسیلہ بہم پہنچایا۔
نائٹروجن کو امونیا اور نائیٹرک ایسڈ کی تیاری میں استعمال کیا جانے لگا اور ان دونوں کو الگ الگ استعمال کر کے نائیلون (Nylon) اور دھماکہ خیز مواد کی تیاری عمل میں آئی جب کہ امونیا اور نائٹرک کوباہم ملا کر کھاد کے طور پر استعمال کیا جا تا ہے ۔(چارٹ)’’جوہر تابکار ‘‘ہو یا جوہر ’’غیر تابکار‘‘ دونوں صورتوں میں حقائق (نظریہ ) تک رسائی حاصل کرنے کے لئے سائنس دانوں کو صبر آزما تجزیوں اور تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔