• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق محترمہ شیریں مزاری نے وزارت خارجہ پر اپنے شدید اعتراض اور غم وغصہ کا اظہار جس طرح برملا کیا وہ مناسب نہیں، ایک وزیر کو اپنی ہی حکومت کے اس طرز عمل پر اختلاف کو یوں سرعام نہیں اچھالنا چاہئے تھا۔ پہلے ہی کیا کم اعتراضات حکومت اور حکمرانوں پر لگائے جارہے ہیں کہ گھر کے بھیدی بھی لنکا ڈھانے لگے اور اپنے پول خود کھولنے لگیں گے تو پھر اختلاف کرنے والے جو کہیں وہ کم ہی ہوگا۔ شیریں مزاری نے وزارت خارجہ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا کہ وزیر خارجہ صرف اپنے ہم منصبوں کو ٹیلی فون کرتے ہیں۔ انھوں نےیہ نہیں بتایا کہ وہ ہم منصبوں سے ٹیلی فون پر کیا باتیں کرتے ہیں کیا وہ اُن سے اُن کے ملک میں آٹے دال کے دام مہنگائی بیروزگاری غربت کے بابت معلومات حاصل کرنے کیلئے بات چیت کرتے ہیں یا اُنھیں یہ بتانے کیلئے ٹیلیفون کرتے ہیں کہ ہماری معیشت ڈوبنے کو ہے جو کچھ مدد ہو سکتی ہے وہ کر دی جائے یا وزیر خارجہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر ضروری اور فوری معلومات پر مشاورت کرنے دوستوں خیر خواہوں کو مطلع کرنے کیلئے فون کرتے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ کشمیر کے معاملے پر وزیر خارجہ اور وزیر اعظم پاکستان کے بیانیہ میں فرق ہے دونوں الگ الگ دکھائی دیئے ہیں۔ محترمہ شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ دفتر خارجہ نے وزیراعظم کی کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے، وزیراعظم نے اپنی تقاریر اور بیانات سے تن تنہا کشمیر کا بیانیہ بدل کر رکھ دیا تھا مگر دفتر خارجہ نے وزیراعظم اور کشمیریوں کی کوشش کو ناکام بنا دیا، اگر دفتر خارجہ کام کرتا تو دنیا ہماری بات سنتی۔ اسلام آباد میں کشمیر سے متعلق فن پاروں کی نمائش کے موقع پرخطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دفتر خارجہ نے مایوس کیا، اگر دفتر خارجہ، کشمیر پر پالیسی بنانے والے اور دیگر ادارے وزیراعظم کے بیانیہ کو اپنا لیتے تو آج حالات بہت مختلف ہوتے، دنیا نوٹس لے چکی ہوتی (کیا کشمیر کو بھارت آزاد کر دیتا؟) عالمی سیاست اپنی جگہ لیکن دفتر خارجہ بھی تو کچھ کرے، وزیر خارجہ صرف وزرائے خارجہ کو فون کرےگا یا کسی فورم پربات کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے وزیراعظم کو مایوس کیا ہے۔

کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہے۔ پاکستان کشمیر کو اولین اہمیت و حیثیت دیتا ہے۔ اس کے باوجود ہماری سفارت کاری میں وہ دم خم نظر نہیں آتا نہ ہی کسی طرح کی منظم حکمت عملی دکھائی دیتی ہے۔ بھارت کی جانب سے شہریت قانون کی تبدیلی کے بعد بھارت کے طول و عرض میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بھی ہم بھارت کے خلاف عالمی فورم پر نہیں اُٹھا سکے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان کےدورے پرآئے ہم پھر بھی اپنی بات پہنچانے میں، ان سےمنوانے میں ناکام رہے، ہم اپنی بات موثر انداز سے اُن تک پہنچا نہیں سکے۔ پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتا ہے اور اس شہ رگ سے اتنی دوری کہ اس کی حفاظت کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے بھی ہم دیگر عالمی اداروں کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کریں اور کشمیر آزاد کرا دیں۔ بھارت نے کشمیر کی مقبوضہ حیثیت بدل ڈالی ہم دیکھتے رہ گئے سوائے چند روزہ شور شرابے کے کچھ نہ کرسکے۔ اگر ہم اقوام متحدہ میں اپنے ہم نوا اور ہمدردوں اور چین جیسے مہربان دوست کے تعاون سے مسئلہ کشمیر کو اُٹھاتے اور بھرپور کوشش کرتے تو شاید کچھ بہتری کے آثار نظر آنے کی امید ہوتی۔ آنے والے وقت میں بھی ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکیں گے جو کچھ ابھی کر رہے ہیں۔ ہمارے اپنے داخلی خارجی مسائل اس قدر ہیں کہ ہمیں اُن سے ہی فرصت مل جائے تو غنیمت ہے۔ کشمیر کو کبھی ہمارے حاکم طبقات نے وہ اہمیت نہیں دی جس کا وہ متقاضی ہے۔ کشمیر بھارت کا تھوڑی ہے جو ہم چپ کر کے بیٹھ جائیں وہ جو مرضی آئے کرتا رہے ہم چپ چاپ دیکھتے رہیں اگر ہم اپنے رویوں کو نہیں بدلیں گے تو مسئلہ کشمیر کو کشمیری اکیلے حل نہیں کر سکیں گے۔ اُن کے سامنے لاکھوں کی تعداد میں جدید ہتھیاروں سےلیس تربیت یافتہ فوج کھڑی ہے نہتے کشمیری کب تک مقابلہ کرسکتے ہیں ہماری زبانی کلامی حمایت کب تک اُنھیں حوصلہ دے سکے گی اور کب تک وہ پاکستان سےآس لگائے رکھیں گے۔ مودی سرکار بھی یہ بات اچھی طرح سمجھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت بتدریج کشمیر پر اپنا دبائو بڑھا رہا ہے اور ہم صرف بیانات ہی دیے چلے جا رہے ہیں۔ وہ مسلم آبادی کا توازن بگاڑ رہا ہے ہم خاموش ہیں، ہم کچھ نہیں کرسکتے وہ جو چاہے کر رہا ہے۔ دنیا خوب اچھی طرح جانتی ہے کہ کشمیر کسی کے باپ کا نہیں ہے، یہ خطہ جنت نظیر کشمیریوں کا تھا، کشمیریوں کا ہے اور کشمیریوں کا ہی رہے گا، اپنی آزادی کے بعد وہ خود یہ فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے کس کے ساتھ رہنا ہے۔ ہمیں باہم الجھنے کی بجائے ہر سطح پر کشمیر کی بھرپور اور پرزور حمایت جاری رکھنا ہو گی۔

تازہ ترین