تضمین کے لغوی معنی ہیں شامل کرنا، ملانا، جگہ دینا اور اصطلاحِ شعر میں کسی مشہور مضمون یا شعر کو اپنے شعر میں داخل کرنا، چسپاں کرنا، شعر پر مصرع لگانا۔ شاعر جب کسی دوسرے شاعر کے کلام، شعر یا مصرعے سے متاثر ہوتا ہے تو اس پر کچھ اضافہ کرکے اپنالیتا ہے اور پھر شعری تخلیق کا یہ عمل تضمین کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اسی طرح توارد سے مراد دو شاعروں کا ایک ہی مضمون باندھنا یا مضمون کا لڑ جانا ہے۔ مضمون کے پس منظر میں تضمین و توارد کا سمجھنا بہت ضروری ہے، کیوں کہ نعت گوئی کے حوالے سے تضمین، توارد اور سرقے پر بہت کام ہوا ہے، یہاں تک کہ رسالہ ’’نعت‘‘ کا سرقہ نمبر تک شایع ہوچکا ہے۔
پاکستان میں اور خاص طور پر کراچی میں مرثیہ گوئی و مرثیہ خوانی کے ساتھ ساتھ نوحہ گوئی و نوحہ خوانی کی عظیم روایت اپنے پورے التزام کے ساتھ موجود رہی ہے اور نوحہ خوانوں میں جعفر دادا، ناظم بھائی، چھجن صاحب، عزت لکھنوی، سچّے بھائی، آفاق بھائی، ضیاء بھائی، علی بھائی کے بعد 80ء کی دہائی میں ناصر زیدی اور ندیم سرور نے اس صنف میں طبع آزمائی کی، تو سلام پڑھنے میں ناصر جہاں اور اشرف عباس نے منفرد مقام حاصل کیا۔ اسی طرح نوحہ گوئی میں علامہ نجم آفندی کے بعد تجمّل لکھنوی، مجاہد لکھنوی، ذکی عابدی، عزت لکھنوی، ساحر لکھنوی، عروج بجنوری، شاہدنقوی، انیس پہرسری، ہلال نقوی، محشر لکھنوی، شاہد جعفر اور ریحان اعظمی نے کافی شہرت پائی۔
علی رضوی سچّے اپنے والد یاور اعظمی سے نوحے لکھواتے رہے، جب کہ مولانا حسن امداد کے لکھے ہوئے بعض نوحوں نے بھی عالم گیر شہرت حاصل کی۔ نیز، خاندانِ انیس کے چشم و چراغ، احمد نوید کے نوحے بھی خاصے مقبول ہوئے۔ فی زمانہ، عوامی سطح پر ریحان اعظمی اور مظہر عابدی کا کلام بے حد مقبول ہے۔ اُن کے بعد قمر حسنین، میر تکلّم اور ارتضیٰ جون پوری کا کلام بھی کثرت سے پڑھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوحہ کہنے میں شاعر پہلے بڑی محنت کرتے تھے اور تواتر سے شاہ کار نوحے تخلیق ہوتے تھے، پُرسوز طرزیں تخلیق کی جاتی تھیں۔ تاہم، اُس دَور میں بھی توارد کی مثالیں کم تھیں۔
دھیرے دھیرے توارد و تضمین کی رسم عام ہوتی گئی۔ اس عمل میں پرانے مرثیوں میں سے کوئی ایک مصرع بحیثیت مرکزی خیال شاعر کا نام لیے بغیر منتخب کرکے اس کے گرد پورا نوحہ ترتیب دے دیا جاتا تھا اور اس حوالے سے متعدد مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً پورے پورے مصرعے اٹھالیے اور شاعر کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اسی طرح کسی شعر کا مضمون اٹھاکر، لفظ تبدیل کرکے اپنے نام سے پیش کردیا۔ حتیٰ کہ بعض نوحوں میں انیس و دبیر کا نام بطور استفادہ لکھا تو ضرور گیا، لیکن اُن کے نام لیے بغیر کلام کا استعمال کیا گیا اور نوحے کے آغاز میں محض ایک عبارت لکھ دی گئی کہ مشورہ، ڈاکٹر ہلال نقوی یا علامہ ضمیر اختر نقوی، تاکہ ذمّے داری کا کچھ بوجھ ہلکا ہوسکے۔ مزید برآں، یہ کہ انیس و دبیر کے بند کے چوتھے مصرعوں کو اکثر تبدیل بھی کیا گیا، لیکن ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کی کوئی منطق سمجھ نہیں آئی کہ کیا وہ مصرعے کم زور تھے یا صرف اپنا نام انیس و دبیر کے ساتھ جوڑنے کے لیے ایسا کیا گیا۔
پہلی طرز کے نوحوں، جن کے مرکزی خیال پرانے مرثیوں سے لیے گئے ہیں اور دوسری طرز کے مکمل کلام، جو معروف نوحہ خوانوں سے پڑھوائے گئے، ان کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔ معروف نوحہ خواں، حسن صادق نے ایک نوحہ پڑھا، جو بہت مشہور ہوا ’’چلو سلام کریں، اُس کے آستانے کو..... حسینؓ پال کے جس نے دیا زمانے کو‘‘ یہ مرکزی خیال آلِ رضا کے مرثیے سے لیا گیا اور مرثیے کا مطلع تھا ’’بہار پر ہے زمانہ نزولِ قرآں کا....‘‘ آلِ رضا کی اصل بیت یوں ہے؎وہ جس نے اور معزّز کیا گھرانے کو.....حسین ؓپال کے جس نے دیا زمانے کو۔
اسی طرح ندیم سرور نے عرصہ قبل ایک نوحہ پڑھا تھا؎ روضے پہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُداسی سی چھائی ہے.....کنبے کو کھو کے زینب _ناشاد آئی ہے۔ یہ مصرع میر مونس کے مرثیے سے لیا گیا ہے، جس کا مطلع تھا ؎’’جس دَم جہازِ آلِ پیمبر ؐ ہوا تباہ،، بیت کچھ اس طرح ہے؎غل تھا کہ دیکھیں کیا خبر _ شاہ آئی ہے.....روضے پہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُداسی سی چھائی ہے۔ ڈاکٹر ہلال نقوی کا لکھا نوحہ ’’کربلا ہوچکی تیار کوئی ہو تو چلے‘‘ اس مصرعے میں معمولی سی تحریف کرکے کسی شاعر نے نوحہ خواں سے اس طرح پڑھوا دیا ’’کربلا ہوچکی تیار کوئی ہے، تو چلے۔‘‘ یاور اعظمی کے کلام ’’آجا میرے دلبر، میری آغوش میں آجا‘‘ جیسے مصرعے کو معمولی تبدیلی کے ساتھ ’’آجا میرے بچّے، میری آغوش میں آجا‘‘ لکھ کر پڑھوادیا گیا۔ جب کہ محسن نقوی کا مشہورِ زمانہ کلام ’’اے ربِ جہاں پنجتن پاک کا صدقہ‘‘ کتاب ’’جاری ہے کربلا‘‘ میں کسی غیر معروف شاعر کے نام سے شامل ہے، جب کہ محسن نقوی کی کتاب ’’فراتِ فکر‘‘ میں مقطعے کے ساتھ اس کے 20 اشعار موجود ہیں اور ’’جاری ہے کربلا‘‘ میں صرف 9 اشعار مقطعے کے بغیر شامل کیے گئے ہیں۔
کاظم جرولی کا شعر بھی کچھ عرصہ قبل ایک اور شاعر کی زبان سے سنا، جو کہ کاظم جرولی کی کتاب میں بھی شامل ہے؎جب ہوائوں میں نمی محسوس کی عباسؓ نے..... احتیاطاً سانس اپنی روک لی عباسؓ نے۔اسی طرح حضرت علیؓ کے حوالے سے ایک انتہائی قدیم و مشہور نوحہ جدید انداز میں پیش کیا گیا، مگر اصل شاعر کا نام نہیں لیا گیا؎یہ جنازہ ہے علیؓ کا شاہِ خیبر گیر کا.....آج بابا مر گیا ہے شبّرؓ و شبیرؓ کا۔
اب کچھ ذکر،پاکستان کے مشہور و معروف نوحے کا، جس کا عنوان ہے؎ ’’زباں کے ساتھ دل بولا، علیؓ مولا علیؓ مولا‘‘ یہ مصرع ایک عالم میںمشہور ہوا، کیوں کہ خطیبِ باکمال، علّامہ عرفان حیدر عابدی اپنی مجالس میں كثرت سے پڑھتے تھے اور پھر ندیم سرور نے بھی جب اسے اپنے مخصوص انداز میں پڑھا، تو مزید شہرت کا سبب بنا۔ دراصل، یہ کلام بابا ذہین شاہ تاجی فاروقی کا ہے اور ان کی کتاب ’’لمحاتِ جمال( 1966ء) میں ’’نفسِ پیمبر‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔ مکمل کلام اس طرح ہے؎ علیؓ مولا، علیؓ مولا،علیؓ مولا،علیؓ مولا.....زباں کے ساتھ دل بولا،علیؓ مولا ،علیؓ مو لا.....علیؓ اعلیٰ ہے، اولیٰ ہے، علیؓ کا بول بالا ہے.....جو بالا ہے، وہ یہ بولا،علیؓ مولا،علیؓ مولا.....علی ؓ ظاہر ہیں، مظہر ہیں، مقدّم ہیں، موخر ہیں..... علیؓ اولیٰ، علیؓ اولیٰ علی ؓ، مولا، علیؓ مولا..... علیؓ نفسںِ پیمبر ہیں، علیؓ بہتر ہیں، برتر ہیں.....ہرایک میزان میں تولا، علیؓ مولا، علیؓ مولا.....علیؓ کی بادشاہی ہے،علیؓ اسمِ الٰہی ہے..... علیؓ نے ’’سر حق‘‘ کھولا، علی ؓ مولا،علی ؓ مولا۔
اس کلام کے حوالے سے کہیں پڑھا تھا کہ شاعرِاعظم، جوش ملیح آبادی کے بابا ذہین شاہ تاجی فاروقی سے اچھے مراسم تھے اور وہ جوش کے مرثیوں کی مجالس میں شرکت بھی کرتے تھے۔ جوش صاحب نے اس کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اولی کا قافیہ مولا کیسے ہوسکتا ہے۔‘‘ خیر، اس کلام کی مقبولیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔اس کے علاوہ مشہور نوحہ ’’گرم ریتی پہ میں گرتا ہوں، سنبھالو اماں‘‘ مقصود جاوید کا کلام ہے اور ایک اور نوحہ ’’مجھ پہ کیوں بند کرتے ہو پانی..... کیا محمد ؐ کا پیارا نہیں ہوں‘‘یہ مرزا مرتضیٰ علی کا کلام ہے، اسے توارد یااستفادہ اور اصل شاعر کا نام بتائےبغیر کون سی قسم قرار دیا جائے گا؟
اس ضمن میں دیکھا جائے، تو سب سے مظلوم شاعر، مرزا دبیر ہیں، جن کا کلام ’’دفتر ماتم‘‘ ناپید ہونے کی وجہ سے عام لوگوں تک نہیں پہنچا اور ان کے نام کے بغیر ان کا کلام بے دریغ استعمال کیا گیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ان مصرعوں کو شعراءنے اپنے کلام کے درمیان شامل کرلیا۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں؎ پہلا سوار تو نبی ؐ کردگار ہے.....اور دوسرا یہ دوش نبی ؐ کا سوار ہے۔یا؎صدقے میں ذوالجناح پراورذوالفقار پر.....چلتے تھے دونوں مرضی پروردگار پر۔یہ دونوں بیت مرزا دبیر کے مرثیے ’’سرتاجِ کائناتِ حسنؓ اور حسینؓ ہیں‘‘ کی ہیں، جنہیں نوحے میں پڑھا گیا۔
اسی طرح ؎اس وقت چھاتی دیکھنےوالوں کی پھٹتی تھی.....وہ ظلم ہورہا تھا کہ دنیا الٹتی تھی.....اور زیرِ تیغ گردنِ _ شبیرؓ کٹتی تھی.....جاری تھی یہ صدا کہ نبی ؐ کا نواسہ ہوں.....اے شمر! پانی پانی، مَیں پیاسا ہوں، پیاسا ہوں۔یہ مصرعے مرزا دبیر کے مرثیے ’’آمد ہے بادشاہِ فلک بارگاہ کی‘‘ کے ہیں، جنہیں ترمیم کے ساتھ نوحے میں شامل کیا گیا۔آخری مصرعے کو شاعر نے اس طرح کر دیا؎امّاں پلاؤ پانی، مَیں پیاسا ہوں، میں پیاسا ہوں۔
دبیر کا ایک اور شعر ندیم سرور کے نوحے ’’الحفیظ الاماں‘‘ کےمرثیے میں اس طرح موجود ہے؎شرط پنجم ہے کہ چھری بھی نہ دکھاؤ اس کو.....ذبح سے پہلے قضا سے نہ ڈرائو اس کو۔جب کہ نوحے میں یہ شعر اس طرح ہے؎شرط یہ ہے کہ چھری بھی نہ دکھاؤ اس کو.....ذبح سے پہلے قضا سے نہ ڈرائو اس کو۔
شاعر، نسیم امروہوی کا کلام بھی ان کے مقطعے کے بغیر ایک نوحہ خواں نے اس طرح پڑھا ہے؎میں کس طرح سے نکالوں بدن سے جانِ حسینؓ .....بہت ہی سخت ہے یارب یہ امتحانِ _ حسینؓ ۔واضح رہے کہ نوحہ کے مقطعے میں شاعر و نوحہ خواں کے نام کی روایت کا آغاز ڈاکٹر ہلال نقوی نے چار دہائی قبل کیا تھا، جسے جعفر دادا نے پڑھا اور اس کا مطلع تھا؎’’اب کس کا انتظار ہے، اٹھو سکینہؓ گھر چلو‘‘اس نوحے کے مقطعےمیں ڈاکٹر ہلال نے نوحہ خواں و شاعر کا نام ایک ساتھ پہلی بار اس طرح لکھا؎جعفر یوں ہی بیاں کرے غم یہ نبی ؐ کی آل کا.....بی بیؓ کی قبر پر پڑھے نوحہ یہی ہلال کا۔ہلال نقوی کی وجہ شہرت نوحہ گوئی نہیں ہے، اس کے باوجود ان کے لکھے ہوئے نوحے 70 ءکی دہائی سےمشہور ہیں، جن میں سرِفہرست ہے، ’’جاکے کہہ دو کہ دریا پے ہم آئے ہیں۔‘‘