• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت اور نیب نواز شریف اور سلمان شہباز کیخلاف برطانوی حکومت، انٹرپول اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے، نواز شریف مفرور مجرم ہیں، مشیر احتساب

’انٹرپول اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے‘


لاہور (نمائندہ جنگ، ایجنسیاں) وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ حکومت کسی کو این آر او دیگی نہ کسی سے بلیک میل ہو گی، سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کو وطن واپس لانا مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی ذمہ داری ہے کیونکہ وہ انکے ضمانتی ہیں، اسحاق ڈار، علی عمران ،سلمان شہباز سمیت تمام جلد پاکستان واپس آئینگے، جب بھی اداروں نے طلب کیا تو جہانگیر ترین بھی پاکستان میں ہونگے، نواز شریف لندن کی سڑکوں پر جبکہ انکی صاحبزادی ٹوئٹر پر متحرک ہیں نواز شریف کی وطن واپسی کیلئے برطانوی حکومت کو مراسلہ لکھ دیاہے، جبکہ وزیر ریلوے شیخ رشید کا کہنا ہے کہ اسحٰق ڈار، سلمان شہباز کو نہیں لا سکے تو نواز شریف کو لانا آسان کام نہیں، وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف لندن جاکر 20 سال کے جوان بن گئے، نوازشریف کی جعلی رپورٹس کی تیاری میں جن لوگوں کا کردار ہے انکو نشان عبرت بنانا چاہیے، شہباز گل نے کہا کہ نوازشریف جدہ جاتے وقت عوام سے فراڈ کیا اور لندن جاتے وقت ڈاکٹروں سے فراڈ کر گئے۔تفصیلات کے مطابق لاہور میں صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان اور معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مشیر داخلہ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف لندن کی سڑکوں پرچہل قدمی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے العزیزیہ کیس میں 8 ہفتے کی ضمانت ہوئی تھی، نوازشریف کو 4 ہفتے کیلئے علاج کرانے کی اجازت دی گئی تھی اور شہباز شریف نے انکی ضمانت دی تھی۔مشیر داخلہ اور احتساب کا مزید کہنا تھا کہ نوازشریف کے ضمانتی شہبازشریف سے بھی پوچھیں گے، لیگی صدر اب ذمہ داری کا ثبوت دیں، تصاویرمیں توماشااللہ انکی بڑی اچھی صحت ہے۔ نوازشریف لندن میں گھوم رہے ہیں یہ مذاق برداشت نہیں کیا جائیگا، سابق وزیراعظم خود لندن سے نہیں آئینگے۔ان کوواپس لانے کیلئے تمام قانونی طریقہ کاراختیارکیے جائینگے۔شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ نوازشریف کوکرپشن کے دوکیسزمیں سزا ہوچکی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی یہی کہا ضمانت ختم ہوچکی اسٹیٹس مفرورکا ہے، 16نومبر2019ء کو شہباز شریف نے عدالت کوانڈرٹیکنگ دی علاج کے بعد نوازشریف واپس آئینگے۔ دو مارچ 2020ء کوبرطانوی حکومت کو خط لکھا گیا، عدالتی فیصلے کی کاپی ساتھ لگا کربرطانوی حکومت کوخط لکھا گیا۔ انکا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم لندن میں علاج کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔ میڈیکل بورڈ نے لندن میں علاج کی رپورٹس مانگی، لندن میں انہیں ایک ٹیکہ بھی نہیں لگا۔ عدالت اورحکومت پنجاب کو نواز شریف کی کوئی رپورٹ جمع نہیں کرائی گئی۔ چارہفتوں کیلئے علاج کرانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اپوزیشن سے متعلق بات کرتے ہوئے مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا انتہائی نان سیریس رویہ ہے۔ اپوزیشن لیڈروں کے ذاتی کیسزسے ہٹ کرملکی مفاد میں فیصلہ کرے۔ جتنا مرضی این آراوپلس،پلس مانگتے رہیں وزیراعظم عمران خان نے نہیں دینا، آپ جتنا مرضی شور مچالیں قانون توہم نے پاس کرانا ہے۔شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ کیوں اپوزیشن چاہتی ہے کہ نیب منی لانڈرنگ پرانویسٹی گیشن نہ کرے؟۔ قانون سازی ذاتی نہیں ملکی مفاد کیلئے کی جاتی ہیں، اپوزیشن ذاتی مفاد، ذاتی کیسزکیلئے ردوبدل نہ کرے، ہم کسی صورت بلیک میل نہیں ہونگے، اپوزیشن کوکسی صورت این آراوپلس نہیں دینگے۔ انہوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ پراپوزیشن اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد کیسے بناکربیٹھے گی۔ منی لانڈرنگ مدرآف آل کرائم ہے۔ جہانگیر ترین کیس سے متعلق بات کرتے ہوئے مشیر داخلہ اور احتساب نے کہا کہ شوگرکمیشن کی سفارشات تمام اداروں کولکھ دی گئیں۔ ایف آئی اے اپنا کام شروع کرچکی ہے، جہانگیرترین کی کمپنی جے ڈی ڈبلیو عدالت میں سٹے کیلئے گئی ہے۔ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ابھی تک جہانگیر ترین کی کمپنی کو سٹے نہیں ملا، شوگرکمیشن رپورٹ میں جہانگیرترین، سلمان شہباز کا بھی نام ہے، شوگرکمیشن رپورٹ، اداروں نے قانون کے مطابق کارروائی کرنی ہے۔ ایک سوال پر کہ اگر ادارے جہانگیر ترین کی واپسی سے متعلق آرڈر ملتا ہے تو کیا حکومت اس پر عمل کریگی؟ کہ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگرادارے کسی کوبلانے کا کہیں گے توایک لمحے کی بھی دیرنہیں ہوگی۔علاوہ ازیں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ لندن جاکر وہ 20 سال کے جوان بن گئے ہیں۔اسلام آباد میں صحافیوں سے متعلق تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی صحت کے حوالے سے ان کے اہل خانہ کی بھی تشویش دور ہوگئی ہے، عدالتیں ان سے رپورٹس مانگ رہی ہیں مگر وہ رپورٹس نہیں پیش کررہے اسکا مطلب ہے کہ ہوسکتا ہے جاتے وقت جو رپورٹس جمع کرائی گئی تھیں وہ بھی جھوٹی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ʼسوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف جو اب ٹھیک ہیں ان کی طبیعت جاتے وقت بھی اتنی ہی خراب تھی، ایسا ہوسکتا ہے، کیونکہ جب ان کی رپورٹس عدالتوں نے مانگی تو وہ نہیں دے سکے اور ہو سکتا ہے یہاں جو رپورٹس دی گئی تھیں وہ بھی جعلی تھیں۔انہوں نے بتایا کہ ʼہم نے یہ معاملہ وزیر اعظم کے سامنے اٹھایا تو انہوں نے حکومت پنجاب کو تحقیقات کا حکم دیا اور یہ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 467 اور 468 کے تحت فراڈ کا کیس ہے جس میں کم از کم سزا 10 سال کی ہوتی ہے، اب دیکھنا ہے کہ کون کون پکڑا جائیگا۔

تازہ ترین