12/اکتوبر1999ء کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف نے ٹرپل ون بریگیڈ اور کراچی کور کے دستوں کے توسط سے فوجی بغاوت کر کے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر خود کو چیف ایگزیکٹو مقرر کر کے عزیز ہموطنو! السلام علیکم کہہ کر بیٹھ گئے تھے۔
یہ جو پنجابی میں کہتے ہیں نہ کہ”کلّے بندے دا کم“ (اکیلے بندے کا کام) نہیں تھا اور نہ ہی اسی دن کولمبو سے واپسی پر اپنے چیف صاحب کو ہوا میں معلق پاکر کور کمانڈروں نے سول اقتدار پر اپنے تئیں ہلہ بول دیا تھا۔
بالکل اسی طرح جس طرح لسان پاکستان جسٹس محمد رستم خان کیانی المعروف ایم آر کیانی نے ایوب خان جیسے آمر کے سامنے اس کے مارشل لا لگانے پر کلمہ حق کہتے ہوئے کہا تھا” اس دفعہ بدقسمتی اکیلی نہیں آئی بلکہ اپنے ساتھ بٹالینیں لے کر آئی“۔
یہ صرف3 نومبر 2007ء کا قصہ نہیں، یہ12/اکتوبر1999ء کی نقب بھی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مشرف سے پہلے والے حکمرانوں کو بھی اپنے خدا ہونے پر اتنا ہی یقین تھا۔
ملک کے اس وقت کے چیف جسٹس سعید الزمان کی رہائش گاہ پر بھی ایک صبح کرنل اس بات کو یقینی بنانے پہنچ گیا تھا کہ تب تک جسٹس سعید الزمان صدیقی سپریم کورٹ نہ جانے پائیں جب تک نئے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کی اطاعت کرنے والے تمام جج عبوری آئینی حکم یا پی سی او کے تحت حلف اٹھا نہ لیں۔
چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کو فوجی کرنل کے ہاتھوں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر روکے رکھے جانے سے لے کر جنرل مشرف کے عبوری آئینی حکم کے تحت ججوں کے حلف اٹھانے تک اور مسلم لیگ نواز شریف کے فیصل آباد سے منتخب رکن پنجاب اسمبلی رانا ثناء اللہ کو بیس کوڑے مارنے سے لے کر ڈہرکی سندھ کے ہندو پنچایت کے صدر مکھی ناموں مل پر تشدد اور گرفتاری اور آکاش ملاح سمیت سندھی قوم پرستوں کی گمشدگیوں اور تشدد تک اور عام لوگوں پر بجلی کے بلوں کی وصولی کے نام پر انسانیت سوز تشدد جنرل مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد بزور بندوق قائم کی گئی حکومت کے کئی کارناموں میں سے چند تھے جو ان کی حکومت کا ایک سال پورا ہونے تک امریکہ کی معروف عالمی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی خصوصی رپورٹ میں شائع کئے تھے۔ مشاہد حسین، چوہدری نثار علی خان، رانا ثناء اللہ،،حسین حقانی اور ڈاکٹر فاروق ستار مشرف حکومت کے دور کے پہلے گمشدگان تھے جن کو مہینوں تک غائب رکھا گیا ۔
صرف3 نومبر2007ء کو انہوں نے ججوں کو اپنے فرائض سے روک کر گھروں پر نظربند نہیں رکھا تھا۔ مشرف کے اس پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے تمام جج بھی آئین کے شق چھ اور چھ الف کی رو سے ہائی ٹریزن کے مرتکب ہیں جتنے کہ اس وقت کے جنرل مشرف اور ان کی جنتا۔ بلکہ ایسے جیسے جسٹس دراب پٹیل نے ایک دفعہ کہا تھا کہ 5 جولائی1977ء کو نہ صرف جنرل ضیاء اور اس کا جنرلوں کا ٹولہ بلکہ اس کے مارشل لا کے تحت حلف اٹھانے والے اور اس کے فوجی راج کی توثیق کرنے والے سبھی کے سبھی جج بھی 1973ء کے آئین کے آرٹیکل چھ اور چھ الف کے مرتکب ہوئے تھے۔
یہ اور بات ہے کہ اقلیتوں اور چھوٹے صوبوں کے حوالے سے اس آئین میں کچھ شقیں اور ترمیمیں اس کے خالق ذوالفقار علی بھٹو نے بقول شخصے فوج اور مولویوں کو خوش کرنے کیلئے کرائی تھیں ۔
سوال یہ ہے کہ آیا آمر تنِ تنہا اپنی ذات کے یہ کارہائے بغاوت انجام دے رہے تھے کہ فوج بطور ادارہ ان کے ساتھ ہمنوا و ہم رکاب تھی۔ مشرف جب وہ فضا میں تھے تو کون زمین پر طاقتور ان کے حق میں ملک کے منتخب وزیراعظم اور اس کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے نکلا تھا۔ بقول چوہدری شجاعت ایک جیپ دو ٹرک ہی براستہ ایک سو گیارہ بریگیڈ وزیراعظم ہاؤس کی دیواریں پھلانگ رہے تھیں۔ ملک کے اندر باہر کچھ پاکستانی لبرل لوگ مشرف کے ملک میں برسراقتدار آنے پر ایک ٹانگ پر ناچ رہے تھے اور ان میں سے کئی اب بھی ایک ٹانگ پر تپسّیا میں کھڑے ہیں۔
ظاہر ہے کہ جس طرح ڈاکٹر قدیر نے شمالی کوریا کو نیوکلیئر بم کی ٹیکنالوجی تن تنہا سی ون ۔30میں بھر کر نہیں بھیجی تھی اسی طرح پرویز مشرف بھی اپنی اس خطرناک فوجی بغاوت میں اکیلے تو نہیں تھے۔
اگر11 ستمبر کی دہشت گردی نہ ہوتی تو مشرف شاید اتنا نہ ٹک پاتے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اس کے ڈبل رول نے اس آمر کے اقتدار کو پاکستان میں لمبی رسی دے دی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر سیاسی مخالفین کے ساتھ ریاستی دہشت گردی کی سب سے بدتر مثال ہزاروں لوگوں کی گمشدگیاں ہیں۔ مشرف نے پاکستان کو گمشدگیوں کے حوالے سے کل کا ارجنٹائن بنا دیا۔ ججوں نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر تو اسے کھینچ کر رکھا ہے لیکن ان ہزاروں گمشدہ پاکستانی شہریوں اور ان کے خاندانوں کا کیا بنا۔
ظاہر ہے کہ یہ بھی جنرل مشرف اکیلے یہ نہیں کر رہے تھے اور نہ ہی چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں بلا کر انہیں کئی گھنٹے بٹھا کر رکھنے والے اکیلے جنرل مشرف تھے۔
اختر مینگل کو محض ان کے اسکول جاتے بچوں کے پیچھے لگنے والے انٹیلی جنس اہلکاروں سے بازپرس کرنے پر پھینٹی لگوائی گئی مخالفین کو پھینٹیاں لگوانا ان کا پرانا شوق تھا۔ ان کے قیدی برادر نسبتی کراچی سینٹرل جیل میں پُراسرار حالات میں ”مردہ“ پائے گئے۔ اختر مینگل کو کراچی سینٹرل جیل میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے آہنی پنجرے نما کٹہرے میں کھڑا کر کے مقدمہ چلایا گیا۔ جو ہتھیار انہیں امریکہ سے اسامہ بن لادن اور ایمن الاظواہری جیسے شدت پسندوں کو ڈھونڈنے اور ختم کرنے کیلئے ملے تھے ان ہتھیاروں سے انہوں نے بگٹی اور دیگر سرکش، چاہے مری بگٹی قبائل، چاہے عام بلوچوں کو قتل کرایا۔ انہوں نے بینظیر بھٹو کے قتل کا کرائم سین غائب کرانے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر شازیہ خالد کے ملزم کپتان کو بھی عدالت لگنے سے پہلے ہی بری کر دیا۔ جو کچھ انہوں نے پاکستان کی عورتوں کے بارے میں کہا وہ واشنگٹن پوسٹ کی آڈیو وڈیو آرکائیوز میں آج بھی موجود ہے۔
بارہ مئی کو کراچی میں ہونے والے قتل عام و کنٹینر دہشت گردی کو مکّا لہرا کر ”عوامی طاقت “ کا نام دیا۔ کہاں گئے ان کے وہ حمایتی جو کہتے تھے کہ جنرل مشرف کو وہ پانچ کیا پندرہ سال تک منتخب کروا سکتے ہیں۔
انہیں اپنی اس لطیفہ نما مقبولیت کا اندازہ تو کراچی ایئرپورٹ پر اترتے ہی ہوگیا ہوگا جس مقبولیت کی نوید انہیں ان کے ساتھ ہم پیالہ صحافی سنایا کرتے تھے۔
لیکن اس کا مطلب یہ تو ہرگز نہیں کہ انسانی حقوق پامال کرنے والے کے اپنے انسانی حقوق نہیں ہوتے۔جیسے پاکستان کے اٹارنی جنرل نے حال ہی میں فرمایا اورکیا خوب فرمایا تھا۔
کل کے آمر بھی تو ضمیر کے قیدی ہو سکتے ہیں۔ انصاف نہ منتخب ہونا چاہئے نہ وی آئی پی۔ ملک کے کتنے بے چارے عام ملزم گھروں پر نظربند کئے جاتے ہیں یا بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر اپنے فیصلے کا انتظار کرتے ہیں۔ ہونا تو پاکستان کے اس پلوشے کو خلاف انسانیت جرائم کے الزامات میں ہیگ کی عالمی عدالت انصاف میں چاہئے تھا لیکن چک شہزاد کے فارم ہاؤس پر نظربند ہیں۔
اگر اس ملک میں مارشل لا اور فوجی تانہ شاہیوں کو لانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں پہلے دن سے لایا جاتا تو وطن عزیز کے پینسٹھ سالوں میں چالیس سال سے زائد فوجی آمریتوں میں نہ گزر جاتے۔ اس ملک میں مشرف کے ساتھ انصاف منتخب نہیں ہونا چاہئے وگرنہ لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پاکستان میں انصاف یا تو سندھی و سرائیکی وزیر اعظم کے کیس میں ہوتا ہے یا پھر اردو بولنے والے جنرل کے ساتھ یا پھر کسی بھی جنرل کیلئے انصاف محض ریوالونگ دروازہ ہوتا ہے اور یا پھر فرحان عدیل کے موسیقی کے غیرت مند بینڈ ”بے غیرت بریگیڈ“ والے نئے گیت کے بولوں کے مصداق:
جرنیلاں دا ایہہ جادو
تینوں کر لے نہ قابو
ایویں نہ تو گھبرا نہ
ویکھ لے وو ماضی
ایہہ مار لین گے بازی