• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کم و بیش پچھلے چوبیس پچیس سال سے میں کراچی کی مشہور مارکیٹ سولجر بازار سے سبزی، گوشت اور مچھلی کی خریداری کرتی آ رہی ہوں۔ اس علاقے سے متعارف کروانے والی میری دوست مرحومہ صفیہ حسین تھیں اور چونکہ وہ بھی میری طرح ہر چیز اور ہر انسان کو ٹھونک بجا کر دیکھنے کے بعد ہی کوئی واسطہ یا رابطہ قائم کرتی تھیں اور پھر مطمئن ہونے پر یہ تعلق گویا زندگی بھر کے لئے قائم ہو جاتا تھا لیکن پھر اس علاقے اور مارکیٹ کی مجموعی زبوں حالی اور صفیہ کے جانے کے بعد تو یہ سلسلہ گویا ختم ہی ہو کر رہ گیا، صرف مچھلی کی خریداری تک یہ رابطہ برقرار رہا کیونکہ میری دوست کا متعارف کروایا ہوا مچھلی والا بھی اپنی ہی طرز کا ایک خاص بندہ ہے۔ وہ مچھلی بیچنے سے زیادہ حالات حاضرہ اور ملک کی سیاسی صورتحال پر گفتگو کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے مال میں کبھی کوئی خامی رہتی ہو۔ اگر مچھلی یا جھینگا صحیح معیار کا نہ ہو تو وہ صاف انکار کر دیتا ہے کہ باجی! یہ آپ کے مطلب کا نہیں اور نہ ہی آج تک اس کی لائی ہوئی مچھلی میں کبھی کوئی نقص نکلا ہے۔ لانے سے میرا مطلب یہ ہے کہ اب یہی کوئی پچھلے چار پانچ سال سے وہ مطلوبہ مال گھر پر ہی پہنچا دیتا ہے۔ صرف ایک ٹیلی فون کرنا پڑتا ہے اور میں جانے، آنے اور کھڑے ہو کر کٹوانے کی جھنجھٹ سے بھی بچ جاتی ہوں۔
صرف پچھلی بار یہ ہوا کہ مچھلی دھوتے ہوئے ہمارے ملازم لڑکے نے شکایت کی ”باجی مچھلی میں کچھ ٹکڑے باسی ہیں“ کچھ مہینے پہلے متعارف ہونے والے اس لڑکے پر مجھے دل ہی دل میں غصّہ آیا کہ یہ لوگ اپنی ہی کلاس کے خلاف ضرور محاذ بناتے ہیں لیکن دیکھنے پر اندازہ ہوا کہ اس کا خیال صحیح تھا۔ اگر باسی نہیں تو پوری روہو مچھلی میں کم از کم چار ٹکڑے کسی دوسری مچھلی کے اور پہلے کے کٹے ہوئے تھے۔ بہت غصّہ آیا اور سوچا کہ اب آئندہ یہاں سے مچھلی لینا بند۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ اس طرح دھوکہ دیا جائے۔ پہلے تو سوچا کہ اس معاملے پر صرف خاموشی اختیار کی جائے پھر جتا دینا ضروری سمجھا تاکہ دوسر ے کو اندازہ تو ہو سکے کہ اس کی چالاکی پکڑی گئی ہے۔ ٹیلی فون کیا ”کتنے سال ہو گئے مجھے آپ سے مچھلی خریدتے ہوئے…؟“ ”باجی! بہت سال ہو گئے…کیوں؟“”اتنے سالوں کے بعد آپ نے یہ حرکت کی…اس کا کیا مطلب ہے؟“
”نہیں باجی…وہ مچھلی باسی تو نہیں تھی، صرف وزن پورا کرنے کیلئے میں نے کچھ ٹکڑے دوسرے ڈال دیئے تھے۔“ اس نے انکار کرنے کے بجائے فوراً ہی ہتھیار ڈال دیئے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس طرح کی حرکت میں اسے کبھی نہیں کرنے دیتی تھی۔ ”خیر کوئی بات نہیں، میں نے سوچا آپ کو بتا دوں۔ شاید مچھلی کسی دوسرے نے کاٹی ہو۔“ اتنا کہہ کر میں فون بند کرنا چاہتی تھی لیکن وہ مصر تھا کہ ”نہیں باجی… آپ کو پسند نہیں آئی، میں کل دوسری مچھلی لے آؤں گا۔“ ”نہیں اس کی ضرورت نہیں“ مجھے غصّہ آ رہا تھا۔ دراصل ایک لمبے عرصے سے قائم اعتماد مجروح ہوا تھا۔ ”لیکن میرے دل کو سکون نہیں ملے گا، یہ میری غلطی تھی، میں کل اس کے بدلے دوسری مچھلی لے آؤں گا“ وہ کسی صورت جان نہیں چھوڑ رہا تھا۔ ”نہیں میں کل گھر پر نہیں ہوں گی“ یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔
لیکن اگلے ہی دن اس کے مقررہ وقت پر گھر کی گھنٹی بجی۔ میرے گیٹ پر جانے سے پہلے ہی وہ دروازے پر ملازم لڑکے کو مچھلی کا شاپر پکڑا کر واپس جا رہا تھا۔ بھاگ کر میں دروازے تک گئی ”تمہیں منع بھی کیا تھا، لیکن اب پیسے تو لیتے جاؤ۔“ ”نہیں اس کے پیسے تو میں کسی صورت نہیں لوں گا، یہ میری غلطی تھی اور اگر آپ مچھلی نہیں رکھیں گی تو میرے دل کو کبھی چین نہیں آئے گا۔“ یہ کہہ کر وہ جلدی سے رخصت ہو گیا۔ لیکن اس کے چہرے پر لکھی کرب کی تحریر شاید مجھے زندگی بھر یاد رہے گی۔
کیا ابھی تک اس دنیا میں … میرا مطلب ہے ہمارے پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی غلطی کو تسلیم کرتے اور اس پر شرمندہ ہونا بھی جانتے ہیں… یا دوسرے الفاظ میں جن کے ضمیر ابھی تک زندہ ہیں…؟ ورنہ عام طور پر تو یہ ہوتا ہے کہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے ہمیشہ دوسرے کو غلط اور جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کاروباری دنیا میں خاص طور پر ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ ہر معاملے میں قصوروار صرف اور صرف خریدار ہے۔ اپنی ذمہ داری لینے پر کوئی تیار نہیں ہوتا حالانکہ پوری دنیا میں ایک اصول طے ہے کہ گاہک کو ہمیشہ صحیح تصور کیا جاتا ہے اور اس کی بات پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔ اگر وہ کسی چیز میں نقص نکالے تو یہ باور کیا جاتا ہے کہ ایسا ہی ہو گا لیکن ہمارے ہاں اس کے بالکل الٹ ہے۔ اگر آپ ریڈی میڈ کپڑے کے سائز پر بھی اعتراض کریں یعنی وہ اسٹینڈرڈ سائز کے مقابلے میں کم یا زیادہ ہو تو دوکاندار ہمیشہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کا قد یا تو سکڑ گیا ہو گا یا پھر آپ کا وزن کم ہو گیا ہو گا جب ہی تو لباس لمبا اور ڈھیلا لگ رہا ہے یعنی آپ کی بات کا کوئی بھروسہ نہیں۔
بھروسے کی بات پر یاد آیا کہ اس لفظ کے مفہوم سے یہاں کا شاید ہی کوئی دوکاندار واقف ہو ورنہ ایک زمانے میں تو یہ حال تھا کہ دوکاندار آنکھیں بند کر کے آپ پر بھروسہ کرتے تھے۔ جتنی مرضی چاہے چیزیں اٹھا کر گھر لے جائیں، جو لینی ہوں اور پسند آئیں وہ رکھ لیں، باقی واپس کر دیں۔ اب تو شاید ایک آدھ ہی پرانی ہڈی باقی ہے جو بغیر کسی جان پہچان کے بھی صرف انسانوں کی شکل دیکھ کر ہی بھروسہ کرنا جانتے ہیں۔ شاید اسی لئے وہ لاکھوں تو کیا کروڑوں کا کاروبار بھی کر رہے ہیں۔
کاروبار کی بات تو رہی ایک طرف … اپنے حالیہ تجربے سے مجھے ایک بات کا اندازہ ہوا کہ ہمارا یہ ملک جس میں کسی شعبے کی کوئی کل سیدھی نہیں اور ہم حیرت کرتے ہیں کہ اس کے باوجود پتہ نہیں کیسے اور کیوں چلے جا رہا ہے …! تو وہ یقیناً ایسے ہی کچھ ہیرے موتی لوگوں کی وجہ سے ابھی تک قائم ہے یعنی وہ لوگ جن کا ضمیر اب بھی انہیں اپنی غلطیوں پر کچوکے لگاتا اور بے چین رکھتا ہے اور وہ اپنی ان غلطیوں کا حتی المقدور ازالہ کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے کچھ لوگ بھی اگر زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہوں تو پھر معاشرے کے لئے بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔
تازہ ترین