تقسیم ہند کے موقع پر پھوٹنے والے فسادات کہنے کو تو واقعات ہی تھے۔ تلخ اور بہت ہی بہیمانہ واقعات،اور واقعات برسوں بعد حافظے سے محو بھی ہوجاتے ہیںمگر ان واقعات کو تخلیق میں ڈھالنے والوں نے ان کی دائمگی کو یقینی بنادیا۔جب جب، نئی نسلیں اپنے دور کے مسائل سے عہدہ براہونے میں مصروف ہوجائیں گی،فسادات کا ادب ہر آنے والی نسل کے ذہن کوواپس اس واقعے یا واقعات کے ہجوم کی طرف لے کرآئے گا۔امر واقعہ یہ ہے کہ تاریخ کا مضمون وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اُن مخصوص پڑھنے والوں تک محدود ہوتا چلا جاتا ہے جو اس مضمون کا بالارادہ انتخاب کرتے اور اس میں اختصاص حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ادب ، اس کے برعکس، قومی حافظے میں سرایت کرتا اور اس میں محفوظ ہوتا چلا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ فسادات کا ادب 73 سال بعد بھی زندہ ہے،خوب پڑھا جاتا ہے اور نقاد اور اساتذۂ ادب اس کو نت نئے تنقیدی اصولوں پر پرکھ کر دیکھنے میں مسرت محسوس کرتے ہیں۔
ہجرت اور فسادات کے بعد تیسرا بڑا موضوع جو تقسیم ِہند اور حصولِ آزادی کے بعدہمارے ادب میں نمایاں طور پر سامنے آیاوہ مایوسی کا وہ احساس تھا جس کا اظہار شاعری اور فکشن دونوں میں بہت بہتات کے ساتھ ہوا۔مایوسی کی تین بڑی وجوہات تھیں۔ایک توآزادی سے قبل جو خواب دیکھے اور دکھائے گئے تھے وہ بہت زیادہ غیر حقیقی اور رومانوی تھے ۔ہمارے رہنمائوں کا آزادی سے قبل کابیانیہ ایک مثالی ریاست کا بیانیہ تھا،ایک ایسی ریاست جو ہماری جنتِ گم گشتہ بھی تھی اوردنیا کی جدید ترین ریاستوں کی ہمسر بھی۔بالعموم قومی آزادی کی تحریکوں میں رومانوی رنگ آمیزی کو کچھ نہ کچھ دخل ضرور حاصل ہوتا ہے لیکن ان آدرشوں کو لوگوں کے ذہن نشین کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ پیش بینی مستقبل کے چیلنجوںکے حوالے سے بھی کی جاتی ہے۔ایسا نہ ہو تو حصول ِ آزادی کے بعدزمینی حقائق کے سامنے آنے پرخواب تو چند لمحوںہی میں چکنا چور ہوجاتے ہیں۔لوگ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہمیں دکھائے تو سبز باغ تھے مگر پہنچا دیا گیا عبرت سرائے دہرمیں۔لیکن لوگوں کو اگر پہلے ہی باور کرادیا گیا ہو کہ آزادی کے بعد ایک اور طویل جدوجہد تعمیر نو کے لیے کرنی ہوگی تو آزادی کے بعد شکستِ آرزو کا ان کا احساس اتنا گہرا نہ ہو۔
آزادی کے بعد مایوسی کے دراز ہونے کا دوسرا بڑا سبب یہ تھا کہ عامۃ الناس نے دیکھا کہ ماضی کے حکمرانوںاور نئے حکمرانوں میں ،اور ماضی کے طرزِ حکمرانی اور آزادی کے بعد کی حکمرانی کے اسلوب میں کوئی فرق بھی نہیں ہے۔وہی حاکموں کا بالادستی کا رجحان ،وہی افسروں کی رعونت ،امن و امان کے نام پر بنیادی حقوق کا اتلاف،کالے قوانین کے ذریعے معاشرے کو کنٹرول کرنے کی حکمت عملی اور پھر بیرونی دنیا میں نئے آقائوں کی تلاش کا عمل (یہ تو لوگ روز اخباروںمیںدیکھ ہی رہے تھے کہ انگریز کی غلامی کے بعد کس طرح ہمارے حکمران امریکہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اُس کے لیے فدویانہ کردار ادا کرنے کے لیے بے تاب تھے)۔ان تمام عوامل کے،سیاست ،معیشت اورسماج پر مرتسم ہونے والے اثرات مایوسی کو عام کرنے کا وسیلہ بنے۔اہلِ قلم براہ راست بھی ان اقدامات سے متاثر ہوئے کہ اُن کی تنظیمیں زیرِ عتاب آئیں،اُن کے جرائد پر پابندی لگی اور خود ان کو کٹہرے میں کھڑے ہوکراپنے افسانوں اور دوسری تخلیقات کا دفاع کرنا پڑا۔پاکستان بننے کے کچھ ہی دنوں بعد کالے قوانین کا اجراء شروع ہوگیا۔انگریز کے زمانے کے قوانین پہلے ہی موجود تھے۔راقم السطور کی مرتب کردہ معروف صحافی ضمیر نیازی کی کتاب "Fettered Freedom"میں فاضل مصنف نے لکھا تھا کہ آزادی کے بعد کے صرف سات برسوں میں (1947-53ء) صرف پنجاب میں 33اخبارات و رسائل پر چھہ ماہ سے ایک سال تک کی پابندی لگائی گئی۔پابندی کی زد میں آنے والے رسالوں میں ادبی جرائد ’نقوش‘،’سویرا‘اور ’ادبِ لطیف‘ بھی شامل تھے۔ادیب جو معاشرے میں یہ دیکھ رہے تھے کہ ایک عام آدمی کس طرح اس صورت حال سے عہدہ برا ہورہا ہے،اس نے بھی ان کے احسا س کو کچوکے لگائے اور یہ سب کچھ ان کی تخلیقات میں جگہ بناتا رہا۔
مایوسی اور بے چارگی کا تیسرا بڑا سبب آزادی کے بعد تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے والا بدعنوانیوں کا کلچر تھا جس سے سب ہی شعبہ ہائے زندگی متاثر ہورہے تھے۔بدقسمتی تو دیکھیے کہ کرپشن کے بالکل ابتدائی واقعات مہاجر کیمپوں میں سامنے آنا شروع ہوئے اور خود بہت سے رضاکار بھی اس مالی و اخلاقی کرپشن میں ملوث پائے گئے۔پھر ملک کے طول وعر ض میں کرپشن کا زہر پھیلتا چلا گیا۔جو لوگ اس دولت آفرینی کے رازکو پاچکے تھے، انہوں نے خوب مال و متاع اکٹھا کیا،جو محروم رہے اُن کے حصے میں سرد آہوں اور آنکھوں کی نمناکی کے سوا کچھ نہ آیا۔ حساس ادیب اس صورت حال پر کیوں کرخاموش بیٹھ سکتا تھا،سو ادب میں ایک غریب اور مایوس پاکستانی کے جذبات اور احساسات کی نمائندگی بڑے پُر اثر انداز میں ہوئی۔
فکشن اور شاعری میں آزادی کے بعد کے دور کی مایوسی نے کس طور جگہ پائی ،بے شمار مثالیں اس ضمن میں دی جاسکتی ہیں۔احمد ندیم قاسمی کا افسانہ’سناٹا‘ اپنے نام ہی سے بتا رہا ہے کہ افسانہ نگار آزادی کے بعد اپنے ملک کو کس طرح دیکھ رہا تھا۔آزادی کے بعد لوگوں کے خواب کس طرح ٹوٹے ،یہ افسانے میں دیکھا جاسکتا ہے۔شوکت صدیقی کے افسانے کس طرح مختلف مافیا پاکستان میں طاقت حاصل کرتے جارہے تھے۔اُن کے افسانوں میں عام لوگوں کی محرومیاں،ناآسودگیاں اور پھر غریب بستیوں میں پھیلتے ہوئے جرائم کی نشاندہی ہوئی۔منٹو کے افسانوں میں نئی مملکت میں پولیس کی دراز دستیوںاور ایک عام شہری کے لیے معمول کی زندگی گزارنے کے راستے میں لاحق مشکلات دیکھی جاسکتی ہیں۔اس ضمن میں اُن کے افسانے’شہید ساز‘ اور ’کرامات‘ کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
آزادی کے بعد کی مایوسیوں کا کہیں زیادہ موثر اظہار شاعری میں ہوا اور شاعروں نے بہت کھل کر یہ اظہار کیا۔چنانچہ احمد راہی نے کہا ؎
وہ جس کی آرزو لے کر چلے تھے کارواں والے
یہی وہ سرزمین ہے قافلہ سالار سے پوچھو
قتیل شفائی کی نظم کے اشعار ہیں ؎
ہونٹوں پہ موقوف نہیں اک ایک نظر فریادی ہے
کاش کوئی سمجھائے مجھ کو یہ کیسی آزادی ہے
ہر کانٹے کی نوک پہ سو سو لاشے کومل کلیوں کے
چیخ رہا ہے گلشن گلشن ، گریاں وادی وادی ہے
ناصر کاظمی، احمد ریاض، ساغر صدیقی،غرض بے شمار شاعر ہیں جنہوں نے آزادی کے بعد کی غمزدہ فضا میں لوگوں کی مایوسی کی عکاسی کی ہے۔فارغ بخاری نے خوابوں کی شکست و ریخت کو یوں بیان کیا ؎
قفس سے نکلے تو صحنِ چمن میں بند ہوئے
رہائی مل نہ سکی تہمتِ اسیری سے
اور عزیز حامد مدنی نے کہا ؎
زندہ دلانِ شوق نے رکھا بہار نام
اک موجِ خون ہے سرِ گلزار دیکھنا
اس ضمن میںفیض کی نظم تو عشروں سے زبان زد خاص وعام ہے ؎
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِ سُست مَوج کا ساحل
کہیں تو جاکے رکے گا سفینۂ غمِ دِل
فیض کی اس نظم کی تحسین بھی بہت ہوئی اور اس پر تنقید کرنے والوں کی بھی کمی نہیں جو اس میں نئے ملک سے لاتعلقی بلکہ غدّاری تک کی بُو سونگھ لیتے ہیں حالانکہ نظم کا اختتام ایک بڑے عزم پر ہوتا ہے ؎
ابھی گرانی ٔ شب میں کمی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
فیض کی نظم میں جس مایوسی نے جگہ پائی وہ ن م راشد کے یہاں کہیں زیادہ شدت سے اظہار پاتی ہے ؎
یہ قدسیوں کی زمیں
جہاں فلسفی نے دیکھا تھا،اپنے خوابِ سحر گہی میں
ہوائے تازہ و کشتِ شاداب و چشمۂ جانفروز کی
آرزو کا پر تو!
یہیں مسافر پہنچ کے اب سوچنے لگا ہے
’’وہ خواب کا بوس تو نہیں تھا؟
وہ خواب کا بوس تو نہیں تھا ؟ ‘‘
اے فلسفہ گو!
کہاں وہ رویائے آسمانی ؟
کہاں یہ نمرود کی خدائی؟
تو جال بنتا رہا ہے جن کے شکستہ تاروں سے اپنے موہوم فلسفے کے
ہم اُس یقیں سے ، ہم اُس عمل سے، ہم اُس محبت سےآج مایوس ہوچکے ہیں۔
……٭٭……٭٭……