پاکستان میں مخصوص سیاسی صورتحال کے پیش نظر ماہ ستمبر کو ستمگر قرار دیا جارہا ہے کیونکہ سال 2020 میں ستمبر کا آغاز ہی بھر پور سیاسی سرگرمیوں اور عدالتی فیصلوں سے ہوا ہے اور قرائن اس امر کی غمازی کر رہے ہیں ۔کہ یہ صورتحال نہ صرف ستمبر میں اسی انداز سے جاری رہے گی بلکہ آنے والے مہینوں میں بھی اس ماہ ہونے والے بعض اہم واقعات اور فیصلوں کے اثرات نتائج کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں اور دسمبر آنے تک نئے سال کا استقبال کرنے کیلئے مقبول سیاسی چہرےاور بہت سی اہم غیر سیاسی شخصیات جن میں بیور کریٹس ، متعدداداروں کے وہ سربراہان جن پر بد عنوانیوں اور ملکی دولت لوٹنے کے الزامات ہیں قومی منظر پر پرانی آب و تاب سے موجود نہیں ہوں گے ۔
ایک اہم حوالہ فیٹف ۔ کا بھی ہے جس کی مطلوبہ شرائط اور مطالبات پوری کرنے اور قانون سازی کا عمل مکمل کرنے کیلئے پاکستان کے پاس 15 ستمبر تک کا وقت ہے ۔ لیکن ایوان بالا میں تائید حاصل نہ ہونے پر اب حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاکر یہ بل منظور کرانے کا فیصلہ کیا ہے جو اہم ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت کیلئے کھٹن مرحلہ بھی ہے برحال ملکی صورتحال حکمرانوں اور اپوزیشن دونوں کیلئے خاصی غیر یقینی ہے اوراب دیکھنا یہ ہے کہ ستمبر کس کیلئے ستمگر ، ثابت ہو گا۔ جہاں تک خارجی صورتحال کا سامنا ہے وہاں بھی کوئی زیادہ خوشگوار صورتحال نہیں ہے ۔ بعض معاملات میں خواہ وہ کسی بھی اہمیت کے ہوں ان کے غلط یا صحیح ہونے کا فیصلہ اس کے نتائج پر ہوتا ہے یعنی نتائج مطلوبہ آ گئے تو وہ فیصلہ درست تھا بصورت دیگر فیصلے کو غلط ہی قرار دیا جائے گا۔
اس بحث سے قطع نظر کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے سعودی عرب کی شرکت کے بغیر کشمیر پر اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس بلانے کی بات انھوں نے انفرادی حیثیت میں کی تھی یا پھر یہ ایک سوچی سمجھی ’’سفارتی حکمت عملی‘‘ تھی اور انھیں حکومت اور ریاست کا اعتماد حاصل تھا۔ فی الوقت تو اس فیصلے کے نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ ہو سکتا ہے کہ دوررس نتائج اسے درست ثابت کر دیں۔ فوری ردعمل آنے پر سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب کا ہنگامی دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے اپنے ہم منصب اور دیگر سعودی نائب وزیر دفاع سے ملاقاتیں کی تھیں۔
خبروں کے مطابق سپہ سالار کی ان ملاقاتوں میں دوطرفہ تنائو میں خاصی کمی آئی اور سرد مہری کی برف بھی پگھلی ہے اور سعودی حکام کو پاکستان کا موقف دوبارہ تصیح کے ساتھ پیش کیا گیا لیکن یہ ملاقاتیں دونوں طرف سے عسکری و دفاعی شعبوں کے اعلی حکام کے درمیان تھیں اس لیے اب حکومتی سطح پر بہت جلد ہونے والی ملاقات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
وفاقی دارالحکومت میں ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ وزیراعظم عمران خان بہت جلد عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب جائیں گے اور خاتون اول بھی ان کے ہمراہ ہونگی۔ اس موقع پر ان کی سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان آل سعود سے بھی ملاقات ہوگی اور یقیناً اگر وزیر اعظم سعودی عرب جاتے ہیں اور ان کی ایم۔بی۔ایس سے ملاقات ہوتی ہے تو اس ملاقات کا فیصلہ سپہ سالار کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر ہی ہوا ہوگا۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے وزیراعظم کی سعودی کراؤن پرنس سے ملاقات انتہائی ضروری اور اہم اس لئے بھی ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ رشتوں ، تعلق اور وابستگی کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے۔ پاکستان کے لیے سعودی عرب کی سرزمین ایک مقدس حیثیت رکھتی ہے جس سے پاکستان تو کیا کسی بھی مسلمان ملک کا تعلق ختم نہیں ہوسکتا۔
اس پر کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت اپوزیشن کی دونوں بڑی اور اہم جماعتیں ہیں۔ جنھیں پارلیمان میں بھی قابل ذکر نمائندگی حاصل ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ سیاسی حالات میں حکومت کو ان دونوں جماعتوں سے کہیں بڑھ کر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے کہیں زیادہ خطرات ہونے کی حد تک دباؤ اور تشویش ہے اور اس کی وجوہات بھی سامنے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ’’اصل قائد‘‘ میاں نواز شریف ملک سے باہر ہیں جبکہ ملک کے اندر موجودہ قیادت داخلی چپقلش اور سیاست کے حوالے سے تنازعات کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ مقدمات میں گھری ہوئی ہے اگر یہ صورتحال نہ ہوتی تو میاں شہباز شریف اور مریم نواز ایک بھرپور تحریک چلانے کی خواہش پوری کر سکتے تھے لیکن مقدمات اور بعض ’’یقین دہانیاں‘‘ بھی ان کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہیں دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی کی قوت اب صرف سندھ میں حکمرانی کے حوالے سے ہے ۔
قیادت سے لے کر مرکزی رہنماؤں پر منی لانڈرنگ سمیت بدعنوانی کے مقدمات بھی موجود ہیں۔ کئی رہنما اور جیالے بھی لاتعلق ہو چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمارا بھٹو اور بے نظیر کی پارٹی سے تعلق تھا اور خاموش تعلق اب بھی ہے۔ لیکن زرداری اور فریال تالپور کی پارٹی سے نہیں۔ اس پس منظر میں مولانا فضل الرحمان چھوٹی سیاسی جماعتوں کے افراد اور دینی مدرسوں کے طالب علموں کی طاقت کے ساتھ اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حالانکہ نیب نے ان کے خلاف بھی کیس تیار کر رکھے ہیں۔ لیکن حکومت سمجھتی ہے کہ ’’ابھی موقع نہیں ہے‘‘۔ اعلان کردہ پروگرام کے مطابق عاشورہ کے بعد اب آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہونا ہے۔
گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ(ن) کے نائب صدر میاں شہباز شریف کی وفود کی سطح پر مولانا فضل الرحمن سے ان کی رہائشگاہ واقعہ اسلام آباد میں مذاکرات ہوئے تھے۔ جس کے بعد دونوں رہنماؤں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں کسی جوش و خروش کا فقدان اور بیانیے میں مایوسی کی کیفیات خود مذاکرات کے نتائج کی غمازی کر رہی تھیں۔ مولانا فضل الرحمن کی بھرپور کوشش ہے کہ اے پی سی کے ذریعے حکومت کیلئے مشکلات پیدا کی جاسکے سوال یہ ہے کیا اپوزیشن کی اے پی سی حکومت کو ٹف دے سکے گی اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہی ہوسکے گا۔