(امیر جان صبوری کی فارسی نظم کا منظوم ترجمہ)
شہر، گلیاں، گھر، دریچے، راستے خالی ہوئے
جام، دسترخوان، پیمانے بھرے خالی ہوئے
کرگئے سب کوچ، سارے آشنا سب بلبلیں
باغ اور باغیچہ ، شاخیں ،گھونسلے خالی ہوئے
٭
ہائے افسوس اس جہاں پر، حیف اس عالم پہ ہے
خوف کھائیں جس جہاں میں یار اپنے یار سے
خوف کھائیں تشنہ کلیاں جس جگہ گلزار سے
خوف کھائیں عاشقاں آوازہ دیدار سے
خوف کھائیں شہسوار اں جادہ ہموار سے
خوف دستِ مطرب اپنے ساز ہی کے تار سے
خوف جس جا پر مسیحا دیدن بیمار سے
ہائے افسوس اس جہاں پر، حیف اس عالم پہ ہے
٭
ساز ٹوٹے، حد سے گزرا شاعروں کے دل کا درد
سال گزرے تجھ پہ، مجھ پہ انتظارِ سخت کے
غیر بن گئے آشنا، ٹوٹے مصائب کے پہاڑ
٭
گریہ کیا، نالہ کیا، ہر در پہ دستک دے چکا
پھوڑ ڈالے اپنے سر پے اپنے ویراں گھرکے سنگ
حیف! ساکت پانی نے تالاب میں حرکت نہ کی
سونے والے نے ذرا بھی خواب میں حرکت نہ کی
٭
خشک چشمے ہو گئے، دریا رہے نہ اب رواں
آسماں نے بھی سنی نا میرے غم کی داستاں
مے میں باقی جوش ہے، نا عشق میں گرمی ہے اب
کوئی بھی نالہ مرا سنتا نہیں، افسوس یاں
٭
لوٹ آ کہ لوٹ آئیں قافلے پردیس سے
لوٹ آ کہ لوٹ آئیں پھر سے محبوبوں کے ناز
لوٹ آ کہ لوٹ آئیں مطرب و آہنگ و ساز
لوٹ آئیں زلفیں بکھرائے ہوئے عشوہ طراز
لوٹ آ کہ در پہ حافظ کے جھکائیں سر کو آج
لوٹ آ ڈالیں شگاف آج اک فلک کے بام میں
آبکھیریں گل فضا میں، مے اُنڈیلیں جام میں
٭٭ ٭ ٭ ٭
(سینئر صحافی، شاعر اور ادیب ازھر منیر گھمن مارچ 2020ء سے میر شکیل الرحمٰن کی ایک جھوٹے کیس میں گرفتاری کے خلاف احتجاجاً شملہ پہاڑی چوک لاہور میں بھوک ہڑتال پہ ہیں)