سب سے پہلے میں اپنی غلطی کی اصلاح کر لوں پھر دوسروں کی خبر لیتا ہوں۔میں نے گزشتہ کالم میں ایک شعر محترم شورش کاشمیری سے منسوب کیا تھا۔ محترم آصف بھلی کا پیغام آیا کہ یہ شعر شاد عارفی کا ہے۔ صحیح شعر یوں ہے ؎
ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
غلطی کی سرزنش کرتے ہوئے ذہن کو کھنگالا تو جواب ملا کہ تم نے یہ شعر شورش کاشمیری کے حوالے سے چھپا ہوا متعدد بار پڑھا ہے اس لئے اپنے حافظے کو الزام دینے کے بجائے ان دوستوں کو مٹھائی کھلائو جو آن بان سے غلطیاں کرتے ہیں لیکن ان کی تصحیح کو خلاف شان سمجھتے ہیں۔نتیجے کے طور پر سینکڑوں اشعار ’’غلط العام‘‘ کا درجہ حاصل کر چکے ہیں جس طرح عام لوگ اس شعر کو علامہ اقبال ؒکا شعر سمجھتے ہیں حالانکہ یہ شعر صادق حسین کاظمی کا ہے ۔
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کےلئے
ادب تو خیر نہایت وسیع میدان ہے۔ خود 73سالہ تاریخ پاکستان کے بارے میں نہ صرف خاصا ابہام پایا جاتا ہے بلکہ سینکڑوں ایسے واقعات مشہور ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں یا جنہیں مخصوص ایجنڈے کے تحت موڑ دے کر یا مسخ کرکے پھیلا دیا گیا تھا۔میرا تجربہ ہے کہ ’’شوشہ‘‘ بہت جلد مقبول ہوتا اور زبان زدعام بنتا ہے لیکن سچ اس دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے ۔گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر میں جناب علی احمد ڈھلوں کا یہ ’’انکشاف‘‘ پڑھ کرحیرت کے سمندر میں ڈبکیاں کھانے لگا کہ ’’پاکستان کا پہلا قومی ترانہ جگن ناتھ آزاد نے محمد علی جناح کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے لکھا....‘‘اوّل تو علی احمد صاحب جیسے محترم صحافی نے محمد علی جناح لکھا تھا، قائد اعظم لکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی حالانکہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 12اگست 1947ء کو فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ محمد علی جناح کو قائداعظم محمد علی جناح لکھا جائے گا۔دوم گہری تحقیق کے ساتھ میں ثابت کر چکا ہوں کہ جگن ناتھ آزاد سے پاکستانی ترانہ لکھوانا اس صدی کا بڑا جھوٹ ہے ۔نہ قائد اعظم جگن کو جانتے تھے نہ انہوں نے جگن کو ترانہ لکھنے کے لئے کہا اور نہ ہی یہ ترانہ کبھی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔مجھ مسکین کا یہ سچ اس طاقتور جھوٹے پروپیگنڈے کا فسوںتوڑ نہیں سکا ۔اسی طرح کی ان گنت غلط فہمیاں اور ابہام پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے پائے جاتے ہیں اور بہت سے تاریخی حقائق کو بعض مورخین نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے نہایت ہوشیاری سے مسخ کیا ہے ۔میں نے ان غلط فہمیوں کو اپنی حالیہ کتاب ’’سچ تو یہ ہے ‘‘ میں شواہد کےساتھ دور اور واضح کرنے کی کوشش کی ہے دعا ہے کہ میرا یہ قلمی جہاد سرخرو ہو اور تاریخ کو مسخ کرنے والے اپنے عزائم میں ناکام ہوں۔’’غلط العام‘‘ ادب کے حوالے سے ہو یا تاریخ کے حوالے سے، اس کے جڑ پکڑنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے لکھاری اپنے قلم سے نکلی ہوئی تحریر کی تردید کرنا شاید اپنی ہتک سمجھتے ہیں اور قارئین ان کے الفاظ کو حرف سچ سمجھ کر ذہنوں میں بٹھا لیتے ہیں۔
غلطی بہرحال غلطی ہوتی ہے لیکن بعض غلطیاں، غلطیوں کی ماں ہوتی ہیں۔اغلاط کی ماں ایسی ’’غلطیاں‘‘ ہوتی ہیں جو ہمارے قومی حافظے پر اتنے گہرے پنجے گاڑے ہوئے ہیں کہ ہزار کوشش کے باوجود انکا ازالہ نہیں ہوسکا۔ایسی ہی ایک غلطی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورہ ماسکو کے ضمن میں پائی جاتی ہے۔اگر عالم و فاضل ثقہ کالم نگار سہیل وڑائچ بھی یہ تاثر دیں کہ لیاقت علی خان روسی دعوت نامہ ٹھکرا کر امریکہ چلےگئے تو عام قارئین کی معلومات کا کیا حال ہوگا؟ پاکستان کےسابق سیکرٹری خارجہ تنویر احمد خان نے سرکاری ریکارڈ کھنگالنے کے بعد ’’دی نیوز ‘‘ میں تفصیل سے لکھا تھا کہ روس نےدعوت نامہ دینے کے بعد اسے واپس لے لیا تھا اور حکومت پاکستان کے اصرار کے باوجود دورے کی تاریخ نہ دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ مئی 1949ء میں لیاقت علی خان لندن سے واپسی پر تہران رکے۔ پاکستان کے سفیر راجہ غضنفر علی خان نے سفراء کیلئے عشائیہ دیا جس میں روسی سفیر بھی موجود تھا۔ سفیرِ پاکستان نے روسی سفیر سے پاکستانی وزیر اعظم کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کو روس کا دورہ کرکے خوشی ہوگی۔ایک ماہ کے اندر روسی صدر جوزف اسٹالن کی جانب سے دعوت نامہ بذریعہ تہران موصول ہو گیا ۔ اس وقت پاکستان میں روسی سفارتخانہ موجود نہیں تھا۔ لیاقت علی خان نے دعوت فوراً قبول کرلی کیونکہ وہ روس کی صنعتی، زرعی اور اقتصادی ترقی دیکھنے کے مشتاق تھے۔ماسکو نے دورے کیلئے وسط اگست کی تاریخ دی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے نومبر کا عندیہ دیا گیا کیونکہ یوم آزادی کی تقریبات کے سلسلے میں وزیر اعظم کی ملک میں موجودگی ضروری تھی۔اسکے بعد روس نے سردمہری اختیار کرلی اور یاددہانی کے باوجود نئی تاریخ نہ دی۔وزیر اعظم اور انکے وفد کے پاسپورٹ ویزے کیلئے دہلی کے روسی سفارتخانے میں بھجوائے گئے جو بغیر ویزا لگے لوٹ آئے۔ ہندوستانی وزیر اعظم نہرو اکتوبر میں امریکہ کے دورے پر گئے اور نومبر 1949ء میں پاکستانی وزیر اعظم کو امریکہ کی جانب سے دعوت نامہ موصول ہو گیا۔چنانچہ وہ مئی 1950ءمیں امریکہ چلے گئے ۔ (بحوالہ سفارت نامہ، ریاض احمد سید، صفحہ122-4) ۔ مختصر یہ کہ لیاقت علی خان خواہش کے باوجود روس نہ جا سکے اسلئے اس حوالے سے غلط فہمی ہمیشہ کیلئے رفع کر لیجئے۔
اسی طرح کی غلطیوں کی ماں ایک یہ غلطی ہے کہ قائد اعظم نے بحیثیت گورنر جنرل برطانوی تاج یا بادشاہ سے وفاداری کا حلف لیا تھا۔ سچ یہ ہے کہ نہرو نے وہی حلف اٹھایا جو اسے برطانیہ سے موصول ہوا تھا لیکن قائد اعظم نے اپنے قلم سے ترمیم کر کے ’’قانون کے تحت بننے والے پاکستانی آئین سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا۔ 15؍ اگست 1947ء کے گزٹ میں حلف کے الفاظ اس طرح ہیں۔
"I...... do solemnly affirm true faith and allegiance to the constitution of Pakistan as by law established......"
اسی طرح ستمبر 1947ء میں عبوری آئین منظور کرتے ہوئے اس سے برطانوی تاج سے وفاداری کے الفاظ مکمل طور پر حذف کر دیے گئے تھے۔ بڑے بڑے جغادری کالم نگار مسلسل یہ غلطی کرتے جا رہے ہیں۔ کل بھی کئی دوستوں نے ایک مقبول کالم نگار کے کالم کی جانب توجہ دلائی جس میں یہی غلطی کی گئی تھی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)