• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور میں سے کس کو عہدہ چھوڑنا پڑے گا؟

اسلام آباد (انصار عباسی) آئی جی پنجاب پولیس اور سی سی پی او لاہور میں سے کون اپنا عہدہ بچانے میں کامیاب ہوتا ہے؛ اس کا تعین وزیراعظم عمران خان کے فیصلے کی نوعیت سے ہوگا کہ وہ سیاسی فیصلہ کرتے ہیں یا انتظامی۔

لاہور پولیس میں غیر معمولی کشیدگی کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ آئی جی پولیس شعیب دستگیر اس بات کو نظر انداز کرنے کو تیار نہیں جو حال ہی میں مقرر ہونے والے سی سی پی او عمر شیخ نے ان کیخلاف کی تھی۔ آئی جی کیلئے یہ معاملہ سنگین مس کنڈکٹ کا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، سی سی پی او عمر شیخ نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ وہ آئی جی سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں لیکن اب تک کامیاب نہیں ہو پائے۔

شیخ نے اس نمائندے کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ایک واٹس ایپ پیغام دستگیر کو بھیجا ہے جس میں انہوں نے معذرت کرتے ہوئے اپنے بیان کو کنفیوژن قرار دیا ہے، اس بیان کو صوبائی پولیس چیف کیخلاف سمجھا گیا تھا۔ اسی دوران، توقع ہے کہ وزیراعظم عمران خان جلد اس معاملے کا فیصلہ کریں گے۔

ذرائع کے مطابق، عمر شیخ کا حالیہ تقرر حکومت کا سیاسی فیصلہ تھا لیکن سی سی پی او کی جانب سے مبینہ طور پر آئی جی کیخلاف بیان نے پولیس کیلئے سنگین انتظامیہ مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔

گزشتہ ہفتے پنجاب پولیس کو اس وقت غیر معمولی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب نئے مقرر ہونے والے سی سی پی او نے مبینہ طور پر آئی جی پولیس کیخلاف بات کی جس کے جواب میں آئی جی نے وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کرکے انہیں عمر شیخ کے تقرر اور جونیئر افسر کی جانب سے لاہور پولیس افسران کے سامنے اپنے خلاف بیان بازی پر افسوس کا اظہار کیا۔ عمر شیخ کو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سی سی پی او لاہور لگایا تھا اور اس میں دستگیر کی مرضی شامل نہیں تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی جی پولیس کو اس وقت مایوسی ہوئی جب سی سی پی او لاہور کا چارج لینے کے بعد انہوں نے آئی جی کیخلاف بیان دیا۔ دستگیر اپنے افسر کے مس کنڈکٹ پر سمجھوتے کیلئے تیار نہیں، شیخ چاہتے ہیں کہ آئی جی پولیس سے ملاقات کرکے اپنی معذرت کا اظہار کریں۔

اپنے واٹس ایپ پیغام، جس کے متعلق ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے آئی جی کو بھیجا ہے، میں انہوں نے اپنے بیان پر معافی مانگی اور بتایا کہ یہ بیان غلط حوالے سے پیش کیا گیا ہے، توقع ہے کہ دونوں افسران کے مابین کشیدگی ختم ہوگی۔ واٹس ایپ پیغام میں، سی سی پی او لاہور نے آئی جی پولیس سے ملاقات اور اس بیان کے حوالے سے اپنا موقف واضح کرنے کی درخواست کی جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔

عمر شیخ نے اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ کیپیٹل سٹی ڈسٹرکٹ پولیس آرڈر کے مطابق ایک نمایاں حیثیت کا حامل ادارہ ہے اور ماڈل ٹائون کے واقعے کے بعد تمام تر ذمہ داری سی سی پی او پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اس واقعے کے بعد آئی جی پولیس نے انکوائری کے دوران پولیس آرڈر 2002ء کی متعلقہ شق کا حوالہ دیتے ہوئے خود کو بری الذمہ قرار دیدیا تھا۔

انہوں نے واضح کیا کہ انہوں نے اپنے ماتحت اہلکاروں سے کہا تھا کہ کسی بھی حساس معاملے کی صورت میں لاہور پولیس سی سی پی او سے اجازت طلب کرے چاہے اسے سی پی او سے ہی ہدایات کیوں موصول نہ ہو چکی ہوں۔ عمر شیخ کے پیغام میں لکھا تھا کہ ’’میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہم آئی جی پولیس اور حکومت کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ لاہور پولیس کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ان کے سینئر افسران قیمت چکا رہے ہیں کیونکہ گزشتہ دو سال کے دوران چار آئی جی پولیس اور دو سی سی پی اوز تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ سی سی پی او نے آئی جی پولیس کو بتایا کہ انہوں نے لاہور پولیس سے کہا تھا کہ وہ خبردار رہیں اور اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دیں تاکہ ان کے سینئر عہدیدارن سیاسی قیادت کے سامنے ہزیمت سے بچ سکیں۔

شیخ نے آئی جی پولیس کو لکھے پیغام میں یہ اعتراف کیا کہ ان کے الفاظ کا چنائو ممکن ہے درست نہ ہو لیکن ان کا مقصد سینئر افسران کی تضحیک نہیں تھا۔ انہوں نے آئی جی پولیس سے کہا کہ میں اسے پہلی غلطی سمجھتے ہوئے آپ سے معذرت چاہتا ہوں، مجھے عوام کی توقعات پر پورا اترنے کیلئے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔

اس بات کی تصدیق نہیں ہو پائی کہ دستگیر نے اپنے ماتحت افسر کی جانب سے بھیجا گیا یہ واٹس ایپ پیغام پڑھا یا نہیں لیکن ذرائع کہتے ہیں کہ آئی جی پولیس کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس چیف اس معاملے پر کوئی بھی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

اسی دوران اسلام آباد میں ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے اگرچہ آئی جی پولیس دستگیر کی بات تحمل سے سنی لیکن انہوں نے اب تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ دونوں افسران میں سے کس کو جانا پڑے گا۔

تازہ ترین