جگر مراد آبادی کااصل نام علی سکندر تھا ۔ 6 اپریل 1890ء کو مراد آباد میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گھر اور مقامی مکتب میں ہوئی، جہاں انہوں نے اردو اور فارسی کے علاوہ عربی کی بھی تعلیم حاصل کی ۔بعد ازاں اپنے چچا کے پاس لکھنؤ چلے گئے، جہاں اسکول میں داخلہ لیا ۔ نویں جماعت میں دو مرتبہ فیل ہونے کے بعد حصول تعلیم سے دستبردار ہو گئے۔ ان کو شاعری ورثہ میں ملی تھی، ان کے والد مولوی علی نظر اور چچا مولوی علی ظفر دونوں شاعر تھے۔ اصغر گونڈوی کی صحبت نے جگرکی شاعری کو بہت جلا بخشی۔
ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔ بھارتی حکومت نے انھیں ’’پدما بھوشن‘‘ خطاب دیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ ان کے آخری مجموعہ کلام ’’آتِش گل‘‘ پر ان کو ’’ساہتیہ اکیڈمی‘‘ سے پانچ ہزار روپیہ انعام اور دو سو روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر ہوا تھا۔ ’آتش گل‘ کے علاوہ ’’داغ جگر‘‘ اور ’’شعلۂ طور‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں۔ 9؍ستمبر1960 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آج ان کی برسی پر خصوصی مضمون ملاحظہ کریں۔
میرا جگر سے اس وقت کوئی رابط نہیں تھا۔ پھر ایک دن یوں ہوا کہ میرے ایک ادب نواز دوست نے ، جن کے والد بھی شاعر ہیں، مجھے ایک آڈیو کیسٹ لاکر دی، جس کا عنوان تھا " کلام شاعر، بزبان شاعر" ۔۔ اس میں فنا کانپوری، نشور واحدی، جوش اور جگر کا کلام انہی کی آوازوں میں تھا۔
اور یہ آڈیو سننا تھا کہ میں جگر کے عشق میں گرفتار ہوتا چلا گیا۔ جگر کا دل چھو لینے والا ترنم اور اشعار کی غنائیت سب سے منفرد تھی۔
کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجئے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد
……٭٭……٭٭……
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گذرے
تو پھر یہ کیسے کٹے زندگی کہاں گذرے
جو تیرے عارض گیسو کے درمیاں گذرے
کبھی کبھی وہی لمحے بلائے جاں گذرے
میں یہ کسیٹ سنتا اور میرا جی نہ بھرتا۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں جگر کے کلام پر فدا ہوں یا ان کے ترنم پر۔ لیکن پھر دور درشن پر علی سردار جعفری کے پروگرام کہکشاں میں جگر کو دیکھا ۔
رشید احمد صدیقی اور مالک رام کے مضامین جگر کے بارے میں پڑھے تو جگر کی شخصیت کے مختلف گوشے وا ہوتے چلے گئے اور اب میرے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ جگر کا کلام، ان کا ترنم یا ان کی شخصیت کیا چیز ہے جو انہیں دوسروں سے الگ بنائے ہوئے ہے۔اصغر گونڈوی، جگر کے ہم زلف، جنہیں جگر اپنا مربّی اور مرشد جانتے تھے اور کے سامنے کبھی اونچی آواز میں بات نہ کرتے۔
ان کی ہر بات مانتے اور ان کی موجودگی میں نظریں نیچی کئے رہتے۔ نہ صرف اصغر بلکہ ان کے قریبی اور بے تکلف دوستوں کے سامنے بھی اسی رکھ رکھاؤ سے پیش آتے کہ وضع داری شریفوں کی پرانی کمزوری ہے ۔ اب نہ وہ شریف رہے نہ ویسی وضع داریاں۔ خواتین اور لڑکیوں کی موجودگی میں جگر نظریں یوں نیچی رکھتے جیسے وہی ان کی عزت وآبرو کی نگہبان ہیں۔
جگر پر تو اصل مشکلیں ترک شراب کے بعد آئیں۔ صحت بگڑتی گئی، مالی حالات دگرگوں ہوگئے، ذمہ داریاں بڑھتی گئیں۔ لیکن وہ اس کا پامردی سے مقابلہ کرتے رہے۔ اپنی کیفیت اوروں سے چھپاتے، ویسے ہی قیمتی کپڑے پہنتے، اور قیمتی چیزیں استعمال کرتے جنھیں یار دوست ہتھیالیتے اور یہ کبھی ان سے نہ کچھ کہتے اورنہ پوچھتے۔
جگر کی شراب نوشی کے ذمہ دار بھی یہی دوست تھے جو بقول اصغر گونڈوی، ان کا گوشت کھا رہے تھے۔ انہیں سستی شرابیں پلاکر مشاعروں میں لے جاتے یا نجی محفلوں میں ان سے غزلیں سنتے۔ یہ بھی عجیب سی بات ہے کہ جگر سخت مذہبی آدمی تھے۔ جوش سے اکثر ان کی بے دینی پر الجھتے۔ جگر نہ صرف اللہ اور رسول بلکہ انسانوں کے حقوق بھی پہچانتے تھے ،جبکہ بہت سے پارساؤں کا یہ خانہ اکثر خالی ہی رہتا ہے۔
وہ کسی کا حق نہیں مار سکتے تھے، اسی لئے سب کے محبوب تھے۔ معمولی آدمی کی بدتمیزی برداشت کرلیتے لیکن بڑے لوگوں کی نا واجب حرکت پر کچھ کہے بغیر نہ رہتے۔ ان کا شمار کھاتے پیتے لوگوں میں نہیں ہوتا تھا ، تنگی سے بسر ہوتی تھی لیکن مہمانوں کے سامنے آنکھیں بچھائے رکھتے۔ غصے میں کبھی آپے سے باہر نہ ہوتے نہ کبھی اپنی بڑائی جتلا کر دوسروں کے عیب بیان کرتے۔
مشاعروں میں کبھی اس بات کا تردد نہیں کیا کہ انہیں سب سے پہلے یا سب سے آخر میں پڑھوایا گیا۔ منتظمین نے جو کچھ دیا خاموشی سے جیب میں ڈال لیا۔ ایک بار جب وہ سو رہے تھے کسی جاننے والے نے ان کے جیب سے سارے پیسے نکال لئے، جگریہ دیکھ رہے تھے۔ جب لوگوں کو علم ہوا تو پوچھا کہ آپ نے کیوں نہیں بتایا، کہنے لگے شریف آدمی کو رسوا کرنا تو کوئی اچھی بات نہیں۔
جگر داغ کے شاگرد تھے اور اصغر کی عزت کرتے تھے لیکن دونوں کا انداز نہیں اپنایا کیونکہ وہ داغ کی طرح لذت پرست اور اصغر کی مانند صوفی منش تو نہ تھے، وہ تو ایک سرمست انسان کا دل رکھتے تھے، جس کے پاس خلوص کی دولت اور عشق کی قوت کے سوا کچھ نہ تھا۔ جگر کے ہاں محبت ہی محبت تھی۔انسانی خوشحالی اور آسودگی ان کی آرزو رہی۔
کہاں سے بڑھ کے پہنے ہیں ، کہاں تک عمل وفن ساقی
مگر آسودہ انسان کا نہ تن ساقی نہ من ساقی
یا پھر:
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
لیکن جگر اندھیروں سے ہارنے والوں میں سے نہ تھے
خود اپنے ہی سوز باطن سے نکال اک شمع غیر فانی
چراغ دیر وحرم تو اے دل جلا کریںگے بجھا کریںگے
……٭٭……٭٭……
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے، زمانے سے ہم نہیں
'شعلہ طور 'اور 'آتش گل ' کا شاعر دراصل شاعر فطرت تھا۔
شاعر فطرت ہوں میں جب فکر فرماتا ہوں میں
روح بن کر ذرے ذرے میں سماجاتا ہوں میں
جگر کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا سریلا پن ہے۔ جگر کے شعر بولتے نہیں گاتے ہیں اور سیدھے دل میں اترتے چلے جاتے ہیں ۔ ان کا شعر اپنے آپ کو سنواتا ہے اور جیسے آپ موسیقی کی دھن پر سر ہلاتے ہیں ، جگر کی شاعری کے سنگیت کےوجد میں آتے چلے جاتے ہیں۔
ہوش کی حالت میں ہمیشہ پشیمان اور نادم ہوتے اور اس سے باز رہنے کے منصوبے بناتے مگر بقول مالک رام شراب نے ان کی قوت ارادی کمزور کردی تھی اور اس میں بہت حد تک قصور جگر کے آس پاس رہنے والوں کا تھا، جگر جہاں کہیں جاتے، یہ بوتل کھلوا کر ان کے سامنے رکھ دیتے۔ اور جب جگر شراب سے تائب ہوئے تو بھی ان کا امتحان لینے کی کوشش کرتے۔ جگر کا درد یوں سامنے آتا۔
اب چھلکتے ہوئے ساغر نہیں دیکھے جاتے
توبہ کے بعد یہ منظر نہیں دیکھے جاتے
جگر ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھےجس کے مورث اعلی شاہجہاں کے اتالیق تھے پھر کسی بات پر معتوب ہوکر ترک وطن کرکے مرادآباد آگئے۔ دادا اور والد بھی شاعر تھے۔ جگر کی اپنی شخصیت بڑی دل آویز اور پیاری تھی، دل کے صاف، زبان کے کھرے، کسی کا برا نہیں چاہتے بس دوسروں کی خوبیوں پر نظر رکھتے۔
رشید احمد صدیقی کے بقول، جگر صاحب شکل وصورت کے اچھے نہ تھے، لیکن اگراچھی صورت کے ہوتے تو شاید اتنے اچھے معلوم نہ ہوتے۔ گہری سانولی رنگت، پٹے دار بال ان کی شخصیت کو جاذب نظر بناتے۔
جگر کی باتیں کروں تو شاید اس کا حق ادا نہ کرسکوں۔ چند اشعارملاحظہ کریں:
بے کیف دل ہے اور جیے جارہا ہوں میں
خالی ہے شیشہ اور پیے جارہا ہوں میں
……٭٭……٭٭……
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی ، عرفان محبت عام نہیں
……٭٭……٭٭……
ترے دل کے ٹوٹنےپر ہے کسی کو ناز کیا کیا
تجھے اے جگر مبارک یہ شکست فاتحانہ
……٭٭……٭٭……
راز جو سینئہ فطرت میں نہاں ہوتا ہے
سب سے پہلے دل شاعر پہ عیاں ہوتا ہے
……٭٭……٭٭……
اللہ رے وہ شدت جذبات کا عالم
کچھ کہہ کے وہ بھولی ہوئی ہر بات کا عالم