حکمرانوں کی چیرہ دستیوں اور وطن فروشی نے مایوسیوں کو مزید گہرا کیا۔نئے آقائوں کی تلاش میں جس طرح ملک کی خود مختاری کو گروی رکھا گیا،یہ بھی عوام کے ضمیر پر ایک بوجھ تھا۔اہلِ قلم اُن کے احساسات کورقم کررہے تھے۔احمد ندیم قاسمی کے بقول ؎
بے وقار آزادی ہم غریب ملکوں کی
سر پر تاج سونے کا بیڑیاں ہیں پائوں میں
محسن بھوپالی نے کسی رُو رعایت کے بغیر غلامانہ ذہنیت کے حامل حکمرانوں کی حقیقت کو بیان کیا ؎
نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
جہاں تک کرپشن کے نتیجے میں پھیلنے والی مایوسی کا تعلق ہے،یہ تاریخی حقیقت ہے کہ قائداعظم نے اپنی مشہورِ زمانہ ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کی تاریخی تقریر میں کرپشن کے ناسور کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ نو آزاد مملکت کو اس چیلنج سے عہدہ برا ہونا ہوگا۔یہ کرپشن روزِ اول سے ملک کے دامن کو داغدار کرنے میں لگ چکا تھا۔بعد کے دور میں تو اس کے مظاہر الاٹمنٹوں کی دوڑ، پرمٹوں، رشوت ستانی اور اقربا پروری کی صورتوں میں سامنے آتے ہی چلے گئے مگر بدقسمتی سے اس کے بالکل ابتدائی مظاہر، ہجرت کے قافلوں کی لوٹ مارکی صورت میں اور مہاجر کیمپوں میں مختلف بھیانک شکلوں میں وقوع پذیر ہوئے۔
مشہور مسلم لیگی سیاست دان سردار شوکت حیات خان نے اپنی تصنیف "The Nation that Lost its Soul" میں لکھا تھا کہ وزیر ِآبادکاری کی حیثیت سے جب انہوں نے پنجاب کے مہاجر کیمپوں کا دورہ کیا تو کرپشن کے عجیب و غریب واقعات اُن کے مشاہدے میں آئے۔یہاں تک کہ لائلپور(موجودہ فیصل آباد)کے ایک کیمپ میں انہوں نے دیکھا کہ آٹھ آدمی ایک جنازہ اٹھا کر لے جارہے ہیں۔انہوں نے جنازہ رکوا کر میت کو دیکھنا چاہا جس پر میت کی چارپائی اتاری گئی۔
مگر وہ آٹھوں افراد بھاگ کھڑے ہوئے۔دیکھنے پر پتا چلا کہ سوتی کپڑے میں گندم کو لپیٹ کر کیمپ سے باہر اسمگل کیا جارہا تھا،کیونکہ مہاجروں کو دیا جانے والا سوتی کپڑا اور گندم دونوں ہی بلیک مارکیٹ میں فروخت ہورہے تھے جبکہ کیمپ کی یہ حالت تھی کہ اس کا دروازہ اندر سے بند تھا۔جب تالا کھولا گیا تو اس میںایک بندخیمہ نظر آیا۔
جب خیمے کے مکینوں کو باہر آنے کو کہا گیا تو ایک بوڑھی عورت نے جواب دیا کہ ہم عورتیں ہیں اور باہر نہیں آسکتیں کیونکہ ہم سب بے لباس ہیں۔ کپڑوں کے جو ٹکڑے ہمارے بدن پر تھے اُن سے ہم نے یہ خیمہ بنالیا ہے۔شوکت حیات لکھتے ہیں کہ میں نے کیمپ کمانڈنٹ کو بلوا بھیجا مگر وہ دستیاب نہیں ہوسکا۔یہ اور ایسے ہی کئی واقعات اُن کی کتاب میں درج ہیں۔
ادبی تخلیق کاروں نے مہاجر کیمپوں کے اندر انسانی ابتلا اور بے چارگی کی کیسی کیسی دلدوز کہانیاں تلاش کیں،اُن کو پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انسان جب سفاکی پر اترتا ہے توکس حد تک جاسکتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب کا ناولٹ’ یاخدا‘ ،ہاجرہ مسرور کا افسانہ ’امتِ مرحوم‘ اور سب سے بڑھ کر منٹو کی کہانیاں’کھول دو‘ او ر ’ٹھنڈا گوشت‘ جہاں ایک طرف انسانی منافقت اور ہولناکی کو بے نقاب کرتی ہیں، وہیں عورت کی مظلومیت اور فسادات جیسے واقعات کے دوران اُس کے آسان ترین ہدف بننے کو منظر عام پر لاتی ہیں۔
تقسیم ہند اور اس کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات،ہجرت، فسادات،اور مایوسی کے ایک دور سے مرتب ہونے والے ادبی رجحانات کے علاوہ چوتھا اہم رجحان جو ہمارے ادب میں نمایاں ہوا،وہ آزادی کے بعد کے ادب میں نظر آنے والا نوسٹیلجیا (Nostalgia) تھا۔ نوسٹیلجیا عموماً اُس وقت ادیبوں کی تحریروں میں جگہ پاتا ہے جب وہ موجود حالات سے مایوس اور متنفر ہوجاتے ہیں۔ایسی صورت میں وہ ماضی کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔یہ لازماً ماضی میں پناہ لے لینا نہیں ہوتا بلکہ یہ ماضی میں ان اسباب کا کھوج لگانے کے لیے بھی ہوسکتا ہے جو حالات کو حال کی نہج تک لے آنے کا سبب بنے ہوتے ہیں۔
ناسٹیلجیا کاوہ ادب پڑھنے والوں کو زیادہ اپنی طرف متوجہ کرتا ہے جس میں قلمکار کی تاریخ کے مطالعے کی ریاضت بھی جھلکتی ہو۔ اس نوع کے ادب میں محمد احسن فاروقی،عزیز احمد اور انتظار حسین کے ناول نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں لیکن اس سلسلے میں قرۃ العین حیدر کے’آگ کا دریا‘ کو جو اولیت حاصل ہے،اُس میں کوئی کلام ممکن نہیں۔عبداللہ حسین کا ’اداس نسلیں‘ بھی اس ذیل میں ایک اہم ناول ہے مگراس قلمرو پر قرۃ العین حیدر کی حکمرانی آج تک قائم ہے جنہوں نے ہندوستان کی کئی ہزار سال کی تاریخ کو شعور کی رو کی تکنیک کے سہارے اور اپنے کرداروں کی وساطت سے ایک وحدت میں سمیٹ لیا ہے۔خودقرۃ العین حیدر نوسٹیلجیا کے ادب کی وکالت میں کہتی ہیں کہ:
’ہم جہاں بھی رہیں ، ہم دنیا کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں، وہ خطہ جس نے ہمیں جنم دیا ہے ہمیشہ ہمارا ذاتی معاملہ رہے گا۔میری تمام سرگذشت کھوئے ہوئوں کی جستجو اور ہمارا بیشتر ادب نوسٹیلجیا کا ادب ہے اور اس کی یہ خصوصیت 1947ء کے بعد بالکل لازمی اور جائز اور حق بجانب ہے ‘۔
ناسٹیلجیا کی شاعری ،ناسٹیلجیا کے فکشن کے مقابلے میں تو شاید اتنی وقیع نہیں مگر یہ ایسی بھی نہیں کہ اس کو نظر انداز ہی کردیا جائے۔کئی شاعر اس قسم کی شاعری میں اپنی پہچان بنواچکے ہیں۔ جمیل ملک کے اشعار ہیں ؎
گزر رہے ہیں مسافر مہیب راہوں سے
حسین راہ گزاروں کو چھوڑ آئے ہیں
پلٹ کے جانا بھی چاہیں تو جانہیں سکتے
سفینے آج کناروں کو چھوڑ آئے ہیں
ناصر کاظمی کے ناسٹیلجیا میں امید کی ایک کرن بھی ہے؎
دیتے ہیں سراغ فصلِ گل کا
یادوں کے بجھے ہوئے سویرے
رودادِ سفر نہ چھیڑ ناصر
پھر اشک نہ تھم سکیں گے میرے
اور فیض مایوسی اور آزادی کی سحر کی شب گزیدگی کے باوجود امید ہی پر بات ختم کرتے ہیں ؎
ابھی گرانی ٔ شب میں کمی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
تقسیم اور فسادات کے ماحول میں ہمارے ادب کے سفر کا جو ایک مرحلہ شروع ہوا تھا، وہ ایک اعتبار سے ابھی بھی جاری ہے کہ مایوسیوں اور قومی بحرانوں کی ہماری گذشتہ سات سے زیادہ عشروں کی تاریخ ہمیں بار بار 1947ء کی طرف لے جاتی ہے اور ہم اپنے بیشتر عوارض کی شروعات انہی فیصلہ ساز دنوں میں ڈھونڈنے پر مجبور ہوتے ہیں۔تقسیمِ ہند اور فسادات میں جڑیں رکھنے والے ہندوستان اور پاکستان کے معاندانہ تعلقات کے موضوع پرمعروف مصنف اور تاریخ نویس دلیپ ہائیرو نے تو اپنی کتاب کا نام ہی"The Longest August" رکھا ہے، یعنی’طویل ترین اگست‘۔ ہائیرو کا کہنا ہے کہ برصغیر کا 1947ء کا اگست ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔دیکھا جائے تو داخلی طور پر بھی ہمارا اگست 1947ء ابھی تک چلا آرہا ہے۔
ہمارے کم و بیش تمام ہی بنیادی مسائل 1947ء اور اس کے آس پاس کے برسوں ہی میں تخم ریز نظر آتے ہیں۔لیکن اس سب کے باوجود ، اور باوجود اس حقیقت کے کہ ہمارے ادب نے تقسیم ہند اور پھر اُس کے بعد کی پُر پیچ تاریخ اور ملک کے بحران در بحران سفر کو تخلیقی سطح پر محفوظ کیا ہے اور باوجود اس حقیقت کے کہ اس ادب میں حُزن اور انسانی ابتلا کو غلبہ حاصل ہے ،ہمارے ادب کا بہر حال ایک وصف یہ بھی رہا ہے کہ اس میں امید کی ایک کرن ،ا ور اجالے کی ایک زندہ آرزو بھی ہر دور میں موجود رہی ہے ۔لیکن یہ ایک الگ اور تفصیلی گفتگو کا متقاضی موضوع ہے۔سر دست اس سمت میں اشارہ کرتے ظہیر کاشمیری کے ایک شعر پر بات ختم کی جاسکتی ہے ؎
ہمیں خبر ہے کہ ہم چراغِ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے