• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنگ کے معزز کالم نگار ڈاکٹر فرقان حمید نے دعویٰ کیا ہے کہ قائد اعظم نے جگن ناتھ سے قومی ترانہ لکھوایا۔ میرے اس کالم کا مقصد صرف اور صرف سچ کی تلاش ہے نہ کہ کسی بحث میں الجھنا۔ میں اپنی حد تک کھلے ذہن کے ساتھ سچ کی تلاش کے تقاضے پورے کرنے کے بعد یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ چند برس قبل میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) پر بھی یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل 9 اگست 1947ء کو جگن ناتھ آزاد کو بلا کر پاکستان کا ترانہ لکھنے کو کہا، انہوں نے پانچ دنوں میں ترانہ لکھ دیا جو قائد اعظم کی منظوری کے بعد آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور پھر یہ ترانہ اٹھارہ ماہ تک پاکستان میں بجتا رہا۔ جب 23فروری 1949ء کو حکومت پاکستان نے قومی ترانے کیلئے کمیٹی بنائی تو یہ ترانہ بند کر دیا گیا۔ اس انکشاف کے بعد مجھے بہت سے طلبہ اور بزرگ شہریوں کے فون آئے جو حقیقت حال جاننا چاہتے تھے لیکن میرا جواب یہی تھا کہ بظاہر یہ بات قرین قیاس نہیں ہے لیکن میں تحقیق کے بغیر اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ چنانچہ سب سے پہلے میں نے ان سکالروں سے رابطے کئے جنہوں نے قائد اعظم پر تحقیق کرتے اور لکھتے عمر گزار دی ہے۔ ان سب کا کہنا تھا کہ یہ شوشہ ہے، بالکل بے بنیاد اور ناقابل یقین دعویٰ ہے لیکن میں ان کی بات بلا تحقیق ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ قائد اعظم اور جگن ناتھ کے حوالے سے یہ دعوے کرنے والے حضرات نے انٹرنیٹ پر کئی ”بلاگز“ (Blogs) میں اپنا نقطہ نظر اور من پسند معلومات فیڈ کر کے محفوظ کر دی تھیں تاکہ انٹرنیٹ کا استعمال کرنیوالوں کو کنفیوژ کیا جا سکے اور ان ساری معلومات کی بنیاد کوئی ٹھوس تحقیق نہیں تھی بلکہ سنی سنائی یا پھر جگن ناتھ آزاد کے صاحبزادے چندر کے آزاد کے انکشافات تھے جن کی حمایت میں چندر کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھے۔

سچ کی تلاش میں میں جن حقائق تک پہنچا ان کا ذکر بعد میں کروں گا پہلے تمہید کے طور پر یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جگن ناتھ آزاد معروف شاعر تلوک چند کا بیٹا تھا، وہ 1918ء میں عیسیٰ خیل میانوالی میں پیدا ہوا۔ اس نے 1937ء میں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی اے اور 1944ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کیا۔ تھوڑا سا عرصہ ”ادبی دنیا“ سے منسلک رہنے کے بعد اس نے لاہور میں ”جئے ہند“ نامی ہندو اخبار میں نوکری کر لی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ستمبر میں ہندوستان ہجرت کر گیا، اکتوبر میں ایک بار لاہور آیا اور فرقہ وارانہ فسادات کے خوف سے مستقل طور پر ہندوستان چلا گیا۔ وکی پیڈیا (WIKIPEDIA) اور ALL THINGS PAKISTAN کے بلاگز میں یہ دعویٰ موجود ہے کہ قائد اعظم نے اپنے دوست جگن ناتھ آزاد کو نو اگست کو بلا کر پاکستان کا ترانہ لکھنے کے لئے پانچ دن دیئے، قائد اعظم نے اسے فوراً منظور کیا اور یہ ترانہ اعلان آزادی کے بعد ریڈیو پاکستان پر چلایا گیا۔ جگن ناتھ کے صاحبزادے چندر نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت پاکستان نے جگن کو 1979میں صدارتی اقبال میڈل عطا کیا۔
میرا پہلا ردعمل کہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے کیوں تھا؟ ہر بڑے شخص کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں ایک تصویر ہوتی ہے اور جو بات اس تصویر کے چوکھٹے میں فٹ نہ آئے انسان اسے بغیر ثبوت ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ قائد اعظم سرتا پا قانونی اور آئینی شخصیت تھے۔ اس لئے یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی کہ قائد اعظم کسی کو ترانہ لکھنے کے لئے کہیں اور پھر کابینہ، حکومت یا ماہرین کی رائے لئے بغیر اسے خود ہی آمرانہ انداز میں منظور کر دیں جبکہ ان کا اردو فارسی زبان اور اردو شاعری سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ میرے لئے دوسری ناقابل یقین صورت یہ تھی کہ قائد اعظم نے عمر کا معتدبہ حصہ بمبئی اور دہلی میں گزارا، اُن کے سوشل سرکل میں زیادہ تر سیاسی شخصیات، مسلم لیگی سیاستدان، وکلاء وغیرہ تھے۔ پاکستان بننے کے وقت ان کی عمر 71سال کے لگ بھگ تھی۔ جگن ناتھ آزاد اس وقت 29سال کے غیر معروف نوجوان تھے اور لاہور میں قیام پذیر تھے پھر وہ پاکستان مخالف اخبار جئے ہند کے ملازم تھے۔ قائد اعظم کا جگن ناتھ سے تعارف بھی ممکن نظر نہیں آتا کجا یہ کہ وہ اس سے ترانہٴ پاکستان تخلیق کرنے کے لئے کہتے؟
پھر مجھے خیال آیا کہ یہ تو محض تخیلاتی باتیں ہیں جبکہ مجھے تحقیق کے تقاضے پورے کرنے اور سچ کا کھوج لگانے کے لئے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے۔ ذہنی جستجو نے راہنمائی کی اور کہا کہ قائد اعظم کوئی عام شہری نہیں تھے جن سے جو چاہے دستک دے کر مل لے ۔ وہ مسلمانانِ ہند و پاکستان کے قائداعظم اور جولائی 47 سے پاکستان کے نامزد گورنر جنرل تھے۔ ان کے ملاقاتیوں کا کہیں نہ کہیں ریکارڈ موجود ہو گا۔ سچ کی تلاش کے اس سفر میں مجھے 1989 میں چھپی ہوئی پروفیسر احمد سعید کی ایک کتاب مل گئی جس کا نام ہے Visitiors of The Quaid-e-Azam۔ احمد سعید نے بڑی محنت سے تاریخ وار قائد اعظم کے ملاقاتیوں کی تفصیل جمع کی ہے جو 25 اپریل 1948 ء تک کے عرصے کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب میں قائد اعظم  کے ملاقاتیوں میں جگن ناتھ آزاد کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ ”پاکستان زندہ باد“ کے مصنف سیّد انصار ناصری نے بھی قائد اعظم کی کراچی آمد سات اگست شام سے لے کر پندرہ اگست تک کی مصروفیات کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں بھی آزاد کا ذکر کہیں نہیں۔ سید انصار ناصری کو یہ تاریخی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قائد اعظم کی تین جون 1947ء والی تقریر کا اردو ترجمہ آل انڈیا ریڈیو سے نشر کیا تھا اور قائد اعظم کی مانند آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کیا تھا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ پھر بھی میری تسلی نہیں ہوئی۔ دل نے کہا کہ جب سات اگست 1947ء کو قائد اعظم بطور نامزد گورنر جنرل دلی سے کراچی آئے تو ان کے ساتھ ان کے اے ڈی سی بھی تھے ۔ اے ڈی سی ہی حکمران کے رازوں کا امین ، ہر بات سے آگاہ اور معاملات کا اہم ترین عینی شاہد ہوتا ہے اور صرف وہی اس سچائی کی تلاش پر مہر ثبت کر سکتا ہے۔ جب قائد اعظم کراچی اترے تو جناب کیپٹن عطا ربانی بطور اے ڈی سی اُن کے ساتھ تھے اور پھر ساتھ ہی رہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس وقت وہ زندہ تھے لیکن ان تک رسائی ایک کٹھن مرحلہ تھا۔ خاصی جدوجہد کے بعد میں بذریعہ نظامی صاحب اُن تک پہنچا۔ جناب عطا ربانی صاحب کا جچا تلا جواب تھا کہ جگن ناتھ آزاد نامی شخص نہ کبھی قائد اعظم سے ملا ، نہ ہی میں نے کبھی اُن کا نام قائد اعظم سے سنا نہ کبھی قائد اعظم نے اس سے ترانہ لکھوایا۔ اب اس کے بعد اس بحث کا دروازہ بند ہو جانا چاہئے تھا لیکن بند نہیں ہوا۔ اگست 1947ء میں شدید فرقہ وارانہ فسادات کے سبب جگن ناتھ آزاد لاہور میں مسلمان دوستوں کے ہاں پناہ لیتے پھر رہے تھے اور ان کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ان حالات میں انہوں نے ترانہ کیسے لکھا؟ یہی وجہ ہے کہ خود جگن ناتھ آزاد نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا حالانکہ وہ پاکستان میں کئی دفعہ آئے حتیٰ کہ وہ علامہ اقبال کی صد سالہ کانفرنس کی تقریبات میں بھی مدعو تھے جہاں انہوں نے مقالات بھی پیش کئے جو اس حوالے سے چھپنے والی کتاب میں بھی شامل ہیں۔ عادل انجم نے جگن ناتھ آزاد کے ترانے کا شوشہ چھوڑا تھا انہوں نے چندر آزاد کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ جگن ناتھ آزاد کو 1979ء میں صدارتی اقبال ایوارڈ دیا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے صدارتی اقبال ایوارڈ کی ساری فہرست دیکھی ہے اس میں آزاد کا نام شامل نہیں۔ پھر میں کابینہ ڈویژن پہنچا اور قومی ایوارڈ یافتگان کا ریکارڈ کھنگالا اس میں بھی آزاد کا نام موجود نہیں تھا۔ وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار آ جائے۔ اب آیئے اس بحث کے دوسرے حصے کی طرف۔ ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز گواہ ہیں کہ جگن ناتھ آزاد کا کوئی ترانہ یا ملی نغمہ یا کلام 1949ء تک ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوا۔ اس حوالے سے میرے پاس ریڈیو پاکستان کا حلفیہ بیان موجود ہے۔ 14اور 15 اگست کی درمیان شب جب آزادی کے اعلان کے ساتھ پہلی بار ریڈیو پاکستان کی صدا گونجی تو اس کے بعد احمد ندیم قاسمی کا یہ ملی نغمہ نشر ہوا
پاکستان بنانے والے، پاکستان مبارک ہو
ان دنوں قاسمی صاحب ریڈیو میں سکرپٹ رائٹر تھے۔ 15اگست کو پہلا ملی نغمہ مولانا ظفر علی خان کا نشر ہوا جس کا مصرعہ تھا
توحید کے ترانے کی تانیں اڑانے والے
میں نے یہیں تک اکتفا نہیں کیا۔ اس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام اخبارات میں چھپتے تھے۔ میں نے 14اگست سے لے کر اواخر اگست تک اخبارات دیکھے۔ جگن ناتھ آزاد کا نام کسی پروگرام میں بھی نہیں ہے۔ سچ کی تلاش میں میں ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز سے ہوتے ہوئے ریڈیو کے سینئر ریٹائرڈ لوگوں تک پہنچا۔ ان میں خالد شیرازی بھی تھے جنہوں نے چودہ اگست سے 21اگست 1947ء تک کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ انہوں نے سختی سے جگن ناتھ کے حوالے سے اس دعویٰ کی نفی کی۔ پھر میں نے ریڈیو پاکستان کا رسالہ آہنگ ملاحظہ کروایا جس میں سارے پروگراموں کی تفصیلات شائع ہوتی ہیں۔ یہ رسالہ باقاعدگی سے 1948ء سے چھپنا شروع ہوا۔
اٹھارہ ماہ تک آزاد کے ترانے کے بجنے کی خبر دینے والے براہ کرم ریڈیو پاکستان اکادمی کی لائبریری میں موجود آہنگ کی جلدیں دیکھ لیں اور اپنے موقف سے تائب ہو جائیں۔ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ اگر آزاد کا ترانہ ہمارا قومی ترانہ تھا اور وہ 1949ء تک نشر ہوتا رہا تو پھر اس کا کسی پاکستانی کتاب کسی سرکاری ریکارڈ میں بھی ذکر کیوں نہیں ہے اور اس کے سننے والے کہاں چلے گئے؟ اگر جگن ناتھ آزاد نے قائد اعظم کے کہنے پر ترانہ لکھا تھا تو انہوں نے اس منفرد اعزاز کا کبھی ذکر کیوں نہ کیا؟ جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب آنکھیں ترستیاں ہیں (1982) میں ضمناً یہ ذکر کیا ہے کہ اس نے ریڈیو لاہور سے اپنا ملی نغمہ سنا نہ کہ ترانہ۔ کب سنا اس کا ذکر موجود نہیں۔ اگر یہ قائد اعظم کے فرمان پر لکھا گیا ہوتا تو وہ یقینا اس کتاب میں فخر سے اس کا ذکر کرتا۔ آزاد کے والد تلوک چند نے نعتیں لکھیں، جگن ناتھ آزاد نے پاکستان کے لئے ملی نغمہ لکھا جو ہو سکتا ہے کسی وقت ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائد اعظم  سے ملے، نہ اُنہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا اور نہ ہی ان کا قومی ترانہ اٹھارہ ماہ تک نشر ہوتا رہا یا قومی تقریبات میں بجتا رہا۔ قائد اعظم بانی پاکستان اور ہمارے عظیم محسن ہیں۔ ان کے احترام کا تقاضا ہے کہ بلا تحقیق اور بغیر ٹھوس شواہد ان سے کوئی بات منسوب نہ کی جائے اور انہیں سیکولر ثابت کرنے کے جنون میں نہ غلط بیانی کا گناہ کیا جائے اور نہ ہی تاریخ کومسخ کیا جائے۔ بعض دوسرے نکات کی وضاحت پھر کبھی انشاء اللہ۔
تازہ ترین