• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

’’یہ سچ ہے کہ بہت ساری شکایات کا تعلق سرکاری حکام کے امتیازی اقدامات اور ان کے صوابدیدی اختیارات کے ناجائز استعمال سے ہے۔ جن سے لوگوں کے حقوق، مفادات اور آزادیوں پر زد پڑتی ہے۔ یوں متاثرہ افراد ناانصافی کے ازالے کیلئے عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں۔ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کو یکے بعد دیگرے آنیوالی حکومتوں کی طرف سے ملکی نظامِ انصاف کو مضبوط و مستحکم کرنے کے بارے میں بےعملی یا بہت ہی کم عملی سے بھی منسوب کیا جا سکتا ہے۔ عدالتوں، خاص طور پہ ماتحت عدالتوں کے پاس موثر کارکردگی کیلئے درکار مناسب وسائل کا نہ ہونا ہے۔ بلاشبہ کئی عدالتیں انتہائی بےسروسامانی کے حالات میں کام کر رہی ہوتی ہیں یعنی عدالتی افسران اور انتظامی عملہ کی مستقل کمی۔ کچھ شعبوں میں ججز کی تعداد کو دگنا بلکہ تگنا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیرِ التوا مقدمات کے ساتھ رفتار برقرار رکھی جا سکے۔ ناکافی عدالتی عمارتیں، جج صاحبان اور انتظامی عملہ کیلئے رہائشی سہولتوں کے فقدان کا مسئلہ بھی مذکورہ بےسروسامانی کی کڑی ہے۔ ان عدالتوں کے پاس مناسب دفتری سازوسامان کی کمی ہے اور انہیں جدید ٹیکنالوجی تک بھی رسائی حاصل نہیں حتیٰ کہ ان کی لائبریریوں میں قانون اور فیصلوں کے متعلق انتہائی ضروری کتابیں بھی نہیں پائی جاتیں۔ میرے خیال میں ماتحت عدلیہ کی کارکردگی پر سست نگرانی بھی تاخیر کی وجوہات میں شامل ہے۔ لہٰذا میں نے متعلقہ ہائی کورٹوں کے ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کی کارکردگی کے جائزے اور جانچ پڑتال پہ زور دیا ہے جو کہ ان عدالتوں پر کنٹرول اور نگرانی پہ مامور ہیں۔

عدالتی کارروائی کا موثر بندوبست نہ ہونا، مقدمات کی نامکمل فائلیں، قانونی و عدالتی تربیت کے نظام میں نقائص، تنازعات کے متبادل حل کے نظام کا عدم استعمال، پرانے قوانین، غیرلچکدار ضابطے، سبھی خراب صورتِ حال میں اضافہ کرتے ہیں۔ گلوبلائزیشن کی طرف پیش قدمی، شہری زندگی کا رجحان، نجکاری کی پالیسی اور اس کے نتیجہ میں مزدوروں کی تخفیف کا عمل، جیسے عوامل معاشرتی ڈھانچے میں مزید دراڑیں ڈالتے ہیں اور جرائم کے گراف کو اونچا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ بلاشبہ یہ فہرست بڑھتی ہی جاتی ہے۔ یہ صورتِ حال امنِ عامہ میں خرابی کا باعث بنتی ہے اور اقتصادی ترقی کے امکانات کو کم کرتی ہے۔ یہ اگر انصاف تک رسائی کو ناممکن نہ بھی بنائے تو بھی اس کو محدود ضرور کرتی ہے اور نظامِ انصاف پر عدم اعتماد کا باعث بنتی ہے۔

چیلنج کا حل: گوکہ عدالتی نظام کو درپیش مسائل اور مشکلات بہت ہی گمبھیر اور بھیانک نظر آتے ہیں، تاہم میرے خیال میں یہ ہمیں انہیں حل کرنے کا بیش بہا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ میں نے نظامِ انصاف کے سربراہ کے طور پر چیف جسٹسز کمیٹی، سپریم جوڈیشل کونسل اور پاکستان لا کمیشن جیسے اداروں کے فورم پر ایک منظم حکمت عملی کے تحت باقاعدہ بحث و مباحثہ اور غور و فکر کے بعد قابلِ عمل اور مقررہ وقت والے اقدامات تجویز کرنے کی سعی کی ہے جن کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔

(1) عدلیہ کے تنظیمی ڈھانچے کی ہر سطح پر مروجہ طریقہ کار کے مطابق خالی اسامیوں پر تعیناتی عمل کا آغاز کیا جانا۔(2) مقدمات کو تیزی سے نبٹانے کو یقینی بنانے کیلئے عدالت عالیہ میں مخصوص شعبوں کیلئے خصوصی بنچز کی تشکیل۔(3)مقدمات کو نبٹانے کے مقرر کردہ اہداف کے حصول کیلئے اوقات کار میں اضافہ۔(4) سابقہ جمع شدہ مقدمات اور معاشرے کے کمزور طبقات بشمول بیوگان، نابالغان، بیویوں کے نان ونفقہ کے دعویٰ جات، نابالغ بچوں کی حوالگی وغیرہ کے مقدمات کے جلد فیصلہ کیلئے حکمت عملی کا مرتب کیا جانا۔(بحوالہ فیصلہ جات چیف جسٹسز کمیٹی)

5عدالت عالیہ اور ماتحت عدلیہ میں فیصلہ ہونے والے سابقہ جمع شدہ مقدمات اور نئے دائر ہونے والے مقدمات کے بارے میں ہفتہ وار اور ماہوار رپورٹوں کا مرتب کیا جانا۔ (6) ناکافی کارکردگی، نامناسب رویہ یا بدعنوانی وغیرہ کی بنا پر عدالتی افسران و انتظامی عملہ کے خلاف سخت انضباطی کارروائی کے ذریعے انکے اندر نظم و ضبط پیدا کرنے جیسے اقدامات۔ (7) مقدمات کے جلد فیصلے کیلئے ماتحت عدالتوں کو ہدایات کا جاری کیا جانا۔(8) نئے بھرتی ہونے والے جج صاحبان کیلئے قبل ازسروس، جبکہ دیگر جج صاحبان کیلئے دوران سروس تربیتی کورسوں کا انعقاد۔(9) مثالی کارکردگی دکھانے والے عدالتی افسران کیلئے تعریفی اسناد۔(10) مقدمات کے جلد فیصلے کیلئے ماتحت عدالتوں کو ہدایات کا جاری کیاجانا وغیرہ۔

اس پروگرام کے شروع کئے جانے کے بعد نتائج بہت ہی حوصلہ افزا رہے۔ تمام عدالتوں بشمول عدالتِ عالیہ اور ماتحت عدالتوں کی کارکردگی بہتر ہوئی۔ اعداد و شمار، جن میں زیرِ التوا مقدمات، نئے دائر ہونے والے مقدمات، کل تصفیہ طلب مقدمات، اور جس حدتک زیرِ التوا مقدمات میں کمی ہوئی۔ تفصیلات کیلئے 2000اور 2001سپریم کورٹ آف پاکستان کی سالانہ رپورٹس ملاحظہ کی جا سکتی ہیں‘‘۔ میں نے بطور جج سپریم کورٹ آف پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان 20برس پہلے جو اقدامات کئے وہ آج بھی قابلِ عمل ہیں۔ جب میں اپنے اصلاحی اقدامات اور سفارشات کو موجودہ تناظر میں دیکھتا ہوں تو مجھے بہت خوشی ازحد اطمینان ہوتا ہےکہ چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے مقدمات کو جلد نمٹانے کے لئے جو انقلابی اور دور رس نتائج کے حامل انتظامی اور عدالتی فیصلے کیے ہیںوہ میر ی تمنا کے عین مطابق ہیں۔ خصوصاً انہوں نے کراچی کے لاینحل مسائل کو حل کرنے اور اسے جنوبی ایشیا کا خوب صورت، منظم اور شہری سہولتوں سے آراستہ شہربنانے کیلئے جو فیصلے اور اقدامات کئے ہیں وہ یقیناً نتیجہ خیز ہوں گے اگر دُنیا میں کہیں کسی بھی شہری آبادی کو منضبط زندگی کا حامل بنانے کے تقاضے درپیش ہونگے، تو چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کے فیصلوں اور اقدامات سے لازماً استفادہ کرنا پڑے گا۔

تازہ ترین