1969ء میں پاکستانی سنیما پر دو یاد گار فلمیں پیش کی گئیں، جن میں ایک ریاض شاہد کی ’’زرقا‘‘ اور دوسری اے جے کاردار کی ’’قسم اُس وقت کی‘‘۔ دونوں فلموں کو بے حد پسند کیا گیا۔ فلم ’’قسم اُس وقت کی ‘‘ اپنے موضوع اور پروڈکشن کے حوالے سے ایک بہت ہی اعلیٰ معیار کی مقصدی مشن فلم تھی، جو اُس دور میں کثیر سرمائے سے تیار کی گئی تھی۔ فلم کا موضوع جذبۂ حُب الوطنی پر مبنی ہونے کی وجہ سے اُس خفیف لہر کی حیثیت رکھتا ہے جو کسی بڑی موج کی اُٹھان کی محتاج نہیں۔
ایئر فورس پائلٹ کے گرد گھومنے والی یہ کہانی یُوں شروع ہوتی ہے کہ اسکواڈرن لیڈر جاوید (طارق عزیز) کے طیارے کی کرش لیڈنگ سے دکھائی جاتی ہے۔ وہ دشمن کے پانچ طیارے تباہ کرکے جب واپس آرہا ہوتا ہے، تو اس کا طیارہ کرش ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ زخمی ہو جاتا ہے۔
اسے اسپتال پہنچایا جاتا ہے، جہاں اس کی جان بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جاوید کی امی (سورن لتا)، بہن (روزینہ)، محبوبہ (شبنم) اور ان کے دوست محسن امام جو خود بھی پائلٹ ہوتے ہیں، جاوید جو زندگی اور موت کی کش مکش میں تھا، سبھی اس کی طرف پتھرائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ باقی کہانی جنگ کے خون اشام دنوں کی کہانی ہے۔ سایر قوم موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہے۔ اس کے معرکے میں ’’صاحب و بندہ محتاج و غنی‘‘ سب ایک تھے۔
اُن درخشاں دنوں کی داستان ہمت اور شجاعت کی وہ سرخ و شہری داستان ہے جو زندگی کے ہر ورق پر لکھی گئی، کبھی میدان جنگ میں، کبھی پاکستانی فضائوں پر اور کبھی ان شہیدوں کے خون سے جو فرض اپنی جانیں نچھاور کرکے باب شہادت کی جاں بخش دہلیز سے گزرے ہوں۔ یہ کہانی فضائیہ کے فرض شناس مجاہدوں کے لیے ایک خراج تحسین ہے۔ یہ پہلی پاکستانی فلم تھی، جس کی فلم بندی اور تیاری میں پاکستان ایئرفورس نے فلمی یونٹ کے ساتھ پورا تعاون کیا۔
نیشنل اسٹوڈیو لمیٹڈ کی اس شاہ کار فلم کے ہدایتکار اے جے کاردار تھے اور انہوں نے ہی فلم کا منظر نامہ تحریر کیا تھا، جب کہ فلم کی کہانی دبنگ کمانڈر شاہد حسین اور پروفیسر احمد علی نے لکھی۔ فلم کے مکالمہ نویس میں زیڈ اے بخاری، دبنگ کمانڈر شاہد حسین، دائود خان مجلس کے نام شامل ہیں۔ اس فلم کی فوٹو گرافی مارون مارشل جیسے ماہر غیرملکی فوٹو گرافر نے انجام دی۔
جنہوں نے اس فلم کی فوٹو گرافی میں ہالی وڈ فلمز کے انداز کو پہلی بار پاکستانی سینما کے لیے فلم بند کیا۔ ان کی فوٹو گرافی اس دور کی فرسودہ فلمی ماحول میں تازگی کا ایک سانس محسوس ہوتی ہے۔ مارون مارشل کے علاوہ فلم کے بعض مناظر ائیریل فوٹو گرافر اے آر کی بخاری اسکواڈرن لیڈر کی مرہون منت ہے اے جے کاردار نے تمام شعبہ جات میں اپنی بھرپور محنت اور توجہ سے ڈائریکشن دیں، اس کا شمار ان ہدایت کاروں میں ہوتا ہے، جو ہر منظر کو نہایت غورخوض کے بعد فلم بند کرتے ہیں۔ اس فلم کے ہر منظر اور فریم پر ان کے تیکنیکی ذہن کی مہر لگی ہوئی ہے۔ یہ پاکستان کی وہ اولین فلم ہے ، جس میں (Micro cosnic Study) پیش کی گئی ہے، اس فلم کی یہ خوبی اسے دیگر فلموں میں برتری دلاتی ہے۔
اس فلم کا میوزک سہیل رعنا، خان عطاء الرحمن، رفیق غزنوی اور استاد نتھو خان نے ترتیب دیا اور نغمہ نگاری کے لیے فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی، خان عطاء الرحمن اور فیاض ہاشمی کی خدمات لیں گئیں۔ جذبہ حب الوطنی کی تسکین کے لیے اس فلم کے ٹائٹل سونگ ہی کافی ہے۔ اس نغمے کے مختلف حصے موقع کی مناسبت سے ساری فلم میں دوہرا کے جاتے ہیں، جس کے بول یوں ہیں۔’’ قسم اس وقت کی جب زندگی کی کروٹ بدلتی ہے، ہمارے ہاتھ سے دنیا نئے سانحے میں ڈھلتی ہے‘‘ جوش صاب کے لکھے ہوئے اس ترانے کو گلوکار مجیب عالم نے اپنی آواز میں ریکارڈ کروایا تھا۔ اس فلم کے ذریعے تکنیک اور موضوع میں نئے تجربات کیے گئے۔
فلم کی کاسٹ میں طارق عزیز، شبنم، روزینہ، روزی، حسن امام، فریدہ خانم، منیا، پرنس تاج، صاعقہ، اجمل ہدیٰ، سیٹھی، شاہجہ اناور سورن لتا شامل تھیں۔ یہ فلم 12دسمبر 1969ء کو عید الفطر کے روز کراچی کے نشاط سنیما میں ریلیز کی گئی۔فلم کے تقسیم کار ایور ریڈی پکچرز پاکستان تھے۔