1965 سے پہلے کی بات ہے، میں اُن دنوں چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ گھر (گاؤں) سےا سکول (شہر) تک کوئی 5 کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ راستے میں ایک اور گاؤں پڑتا تھا۔میرا آنا جانا پیدل ہی ہوا کرتا تھا۔ گاؤں کی آبادی، نہر کا پل، کچی سڑک، پھر کھیتوں کے بیچوں بیچ پگڈنڈی، پھر بیچ والا گاؤں جس میں پکے مکان نسبتاً زیادہ تھے، پھر ادھ پکی سڑک، پھر ایک اور نہر کی پٹڑی جس پرا سکول کا پچھلا پھاٹک کھلتا تھا۔ روز کا معمول یہی تھا، سویرے سویرے ناشتہ کر کےا سکول جاتا، تپتی دوپہر کو گھر کی طرف واپسی۔ سردیوں میں دھوپ بھلی لگتی اور گرمیوں میں بھی کھیتوں، درختوں وغیرہ کی وجہ سے دھوپ کی شدت کا احساس نہیں ہوتا تھا، تاہم پسینہ اپنا راستہ بنا لیتا۔
اسی طرح کی ایک دوپہر، اسکول سے واپسی پر کھیتوں کے بیچ پگڈنڈی پر پڑے کاغذ کے ایک لفافے نے توجہ اپنی طرف کھینچ لی،جس پر چکنائی کے داغ تھے۔ کسی نے پکوڑے خریدے ہوں گے، راہ چلتا کھاتا گیا ہوگا، جہاں پکوڑے ختم ہو گئے لفافہ وہیں ڈال دیا۔ موٹے سفید کاغذ پر کالی روشنائی میں کچھ شعر چھپے ہوئے تھے۔
چلتے چلتے لفافہ اٹھایا، اس کو احتیاط سے کناروں کے ساتھ ساتھ پھاڑا، کھولا تو وہ کسی ادبی رسالے کا ورق تھا۔ ایک طرف نظم تھی، عنوان وغیرہ کا تو کچھ پتہ نہیں، لکھا کچھ ایسا تھا کہ:
اور ہوا کا پاگل جھونکا
یوں ہی اپنی دھُن میں کھویا
نگر نگر سے اک اک گھر سے
سوکھے سبز اور (آگے یاد نہیں) پتے ۔۔۔ لے کر ۔۔۔ اُڑتا جائے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
دوسری طرف ایک غزل تھی۔ آج تقریباً 50 سال بعد بھی اس کے دو شعر من و عن یاد ہیں:
گلشن گلشن دام بہت ہیں
اب یہ منظر عام بہت ہیں
مے خانے آباد ہیں دل کے
ٹوٹے پھوٹے جام بہت ہیں
شاعر کا نام مت پوچھئے گا۔ تب اتنا شعور ہی نہیں تھا کہ شاعر کا نام کتنا اہم ہوتا ہے۔ (محمد یعقوب آسی)