(گزشتہ سے پیوستہ )
سید صاحب شاہ بخاری کی قیادت میں لڑنے والے مجاہدین تو اب بھی اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے تھے لیکن اب انگریز فوج کی عددی برتری کا مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔مجاہدین ایک ایک کرکے جام شہادت نوش کرنے لگے اور آخر میں بچے کھچے مجاہدین نے قریبی مسجد کا رُخ کرلیا۔
بچھے کچھے مجاہدین جو مسجد میں موجود تھے انہیں گرفتار کرنے کے لئے انگریز فوج کا افسر مٹکاف ایک دستہ لیکر آگے بڑھا تو سید صاحب شاہ بخاری نے ایک بار پھر منادی کی کہ کون ہے جو مسجد کی حرمت پر قربان ہونا چاہتا ہے ؟کئی جانباز جا م شہادت نوش کرنے کے لئے آگے آگئے۔یہ سب مجاہدین نہتے تھے ان کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا مگر جب یہ آگے بڑھے تو انگریز فوجیوں نے خوفزدہ ہوکر فائر کھول دیا۔
گولیوں کی باڑ میں کئی مجاہدین نیچے گر کر تڑپتے نظر آئے مگر ان بہادر جانبازوں نے انگریز فوجیوں کو توڑے دار بندوقیں دوبارہ لوڈ کرنے کا موقع نہ دیا ۔یوں نہتے اور غیر مسلح مجاہدین نے انگریز فوج کے اس دستے کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کردیا ۔اب ایک سکھ رجمنٹ کو بھیجا گیا تاکہ مسجد میں پناہ لینے والے مجاہدین کو نکالا جا سکے ۔
یہاں نہ صرف کیپٹن اسفند یار بخاری کے والد ڈاکٹر فیاض حسین بخاری کے پردادا سید صاحب شاہ بخاری شہید ہوگئے بلکہ ان کے ساتھ اٹک سے آئے بیشتر مجاہدین آزادی کی جدوجہد میں قربا ن ہوگئے۔مکھڈ شریف ،کِسراں اور اٹک کے دیگرعلاقوں سے آئے ان مجاہدین میں سے اکا دکا ہی زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔انہی میں سے ایک مرشد حسین مٹھیال تھے جو پہلے لکھنو گئے مگر جب معلوم ہوا کہ آزادی کے متوالوں کو ہر جگہ شکست ہوچکی ہے تو شکستہ دل کیساتھ کِسراں لوٹ آئے۔یہاں جب کیپٹن اسفند یار شہید کے دادا حیدر شاہ ،جو تب کم سن تھے ،نے اپنے باپ کے بارے میں پوچھا تو مرشد حسین مٹھیال کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
کیپٹن اسفند یار بخاری شہید کے خاندان کی داستان یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اب تاریخ کے ایسے جبر کا آغاز ہوتا ہے کہ جذبات و احساسات کے اظہار کے لئے غالب کے الفاظ مستعار لیکر کہنا پڑتا ہے۔
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں۔جانا پڑا رقیب کے گھر پر ہزار بار۔اے کاش جانتا نہ ترے رہگرز کو میں۔1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعدوفادار سرنگوں اور غدار سرخرو ٹھہرے۔ انگریزوں کا ساتھ دینے والوں نے رفعتیں اور خلعتیں پائیں اور مزاحمت کرنے والے مجاہدین کے اہلخانہ کسمپرسی اور گمنامی کی زندگی گزارنے لگے۔
کیپٹن اسفند یار شہید کے پردادا اور ان کے والد ڈاکٹر فیاض حسین بخاری کے دادا سید حیدر شاہ جواس جنگ آزادی کے وقت چار سال کے تھے جب جوان ہوئے توان کے ماموں غم روزگار کی تلاش میں انہیں راولپنڈی کے پولیس افسر رتن چند کے پاس لے گئے جو سید صاحب شاہ شہید کے شاگرد تھے۔
کیپٹن اسفند یار بخاری کے والد ڈاکٹر فیاض حسین بخاری 1990ء کو شائع ہونے والے ’’حکایت‘‘کے شمارے میں اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جب حیدر شاہ جوان ہوا تو اس کا ماموں اعظم اسے راولپنڈی رتن چند کے پاس لے گیا۔رتن چند سید صاحب شاہ بخاری کا شاگرد تھا اور ان دنوں راولپنڈی میں پولیس افسر تھا۔رتن چند نے حیدر شاہ کو پولیس میں بھرتی کرلیا ۔یوں ایک مجاہد آزادی کے بیٹے نے انگریزوں کی ملازمت اختیار کرلی۔
کیپٹن اسفند یار شہید کے پردادا حیدر شاہ انگریزوں کی نوکری کرتے رہے اور پھر ان کے دادا غازی سید محمود شاہ بھی قیام پاکستان سے پہلے انگریز دور میںپولیس میں بطور سب انسپکٹر بھرتی ہوگئے۔ان سے متعلق بھی بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے گجرات میں پوسٹنگ کے دوران وہاںٹانڈا کے علاقہ میں موجود اکلوتی مسجد کو آباد کیا تو وہاں کے رہائشی سکھوں نے ان پر حملہ کردیا۔
مسجد کی بے حرمتی کرنے والے ایک سکھ کو ڈاکٹر فیاض حسین بخاری کے والد غازی سید محمود شاہ نے مار ڈالا تو نہ صرف ملازمت ختم ہوگئی بلکہ ان کے خلاف قتل کا مقدمہ چلا ۔چوہدری فضل الٰہی جو اس وقت گجرات کے مشہور وکیل تھے اور بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں صدر پاکستان بنے ،انہوں نے فیس لئے بغیر سید محمود شاہ کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا اور یوں سید محمود شاہ اس مقدمے سے باعزت بری ہوگئے۔
کیپٹن اسفند یار بخاری شہید کے والد ڈاکٹر فیاض حسین بخاری بتاتے ہیں کہ جب ان کے بچے لڑکپن میں تھے تو اسفند یار کے چھوٹے بھائی حسان نے بہت عجیب و غریب بات کی ۔اس نے اسفند یار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی ہے ۔سب حیران ہوئے کہ یہ کس ذمہ داری کی بات کر رہا ہے۔اس نے کہا، ہمارے والد کے پردادا سید صاحب شاہ نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی ۔مگر ان کے بیٹے سید حیدر شاہ نے انگریزوں کی ملازمت کر لی اور اس پیڑھی نے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔
پھر ہمارے والد کے داداسید محمود شاہ نے مسجد کی حرمت پر قتل کرکے نہ صرف ملازمت کھوئی بلکہ جیل گئے۔ مگراس کے بعد ہمارے والد کی پیڑھی نے کوئی قابل فخر کارنامہ سرانجام نہیں دیا ۔اب اپنے آبائو اجداد کا نام روشن کرنے اور کچھ کر گزرنے کی ساری ذمہ داری اسفند یار پر ہے۔
اور پھر اسفند یاربخاری نے معرکہ بڈابیر کے دوران نہ صرف اس ذمہ داری کا حق ادا کردیا بلکہ اپنے والد کے پردادا سید صاحب شاہ کے کارناموں کو بھی ایک نئی پہچان دی۔کیپٹن اسفند یار بخاری نے 18ستمبر2015 ء کو اپنے لہو سے جرات و بہادری کی داستان رقم کی۔