پشاور(نیوزڈیسک) انسانی حقوق کے مسائل اور واقعات کے کوریج کے حوالے سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کیلئے مختلف شعبوں کے ماہرین کی مشاورت سے تیارکردہ ضابطہ اخلاق پشاور کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب میں جمعرات کے روز جاری کردیا گیا ۔ تقریب میں وزیراعلی کے مشیر برائے اطلاعات کامران بنگش نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی جبکہ شرکاء میں خیبرپختونخوا کی خاتون محتسب رخشندہ ناز،سیکرٹری اطلاعات ارشد خان ، ممبر پیمرا ڈاکٹر ناصر جمال خٹک،شعبہ ابلاغ عامہ پشاور یونیورسٹی پروفیسر علی عمران ، خیبر یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدور ملک ارشد عزیز اور سیف الاسلام سیفی ۔ پشاور پریس کلب کے سیکرٹری جنرل عمران یوسفزئی اور نائب صدر شہزادہ فہد سمیت پشاور مردان اور ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔خاتون محتسب رخشندہ ناز اور ضابطہ اخلاق کو بنانے والے سینئر صحافی شمیم شاہد نے شرکاء کو بتایا کہ چونکہ 2010 میں حکومت پاکستان نے باقاعدہ طور پر انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ایک قانون کی منظوری دی ھے اور اس قانون کے تحت خیبر پختونخوا حکومت نے 2018 میں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ایک پالیسی مرتب کی ھے ۔ اس پالیسی پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں میڈیا کا ایک اھم کردار ھے لہذا اس بنیاد پر اس ضابطہ اخلاق کو مرتب کرنا بہت ضروری تھا۔ اس سلسلے میں شمیم شاہد نے حکومت خیبر پختونخوا ۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی UNDP .پشاور مردان اور سوات پریس کلب کے عہدیداروں کا شکریہ ادا کیا۔ شمیم شاھد نے کہا کہ یہ ضابط اخلاق میڈیابرادی کے تمام شعبہ جات جن میں نامہ نگار، نمائندے، ایڈیٹرز، انسانی حقوق کے محافظ،، محتسب کا دفتر، کام کی جگہوں پر ہراسگی اور ماہرین تعلیم سے مشاورت کے بعد ضابطہ اخلاق تیار کیا گیا ہے جو اخلاق پرنٹ اور الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کے صحافیوں کو معلومات کی رپورٹنگ اور پھیلاؤ میں انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کیلئے رہنمائی فراہم کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ درحقیقت پیمرا / پی ایف یو جے اور دیگر پہلے سے طے شدہ / متفقہ ذرائع ابلاغ کا ضابطہ اخلاق عام ہیں۔ جبکہ اس ذرائع ابلاغ کے ضابطہ اخلاق میں مناسب طریقوں سے انسانی حقوق سے متعلق اُمور میں مدد کرنا ہے۔ اس ذرائع ابلاغ کے ضابطہ اخلاق پر عمل کرنے سے اِن مسائل کو مناسب طریقے سے اُجاگر کرنے پر زیادہ سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ خصوصاً خواتین ٗ بچوں اور غیر مسلم اقلیتوں ٗ مخنث اور دیگر کے ساتھ بدسلوکی اور متعلقہ حکام ٗ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو پابند بنانے کے ساتھ ساتھ حل تلاش کرنا ٗ متاثرین کے تحفظ کو یقینی بنانا ٗ اس کا مقصد لوگوں کے مابین مختلف شعبہ ہائے زندگی میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔رخشندہ ناز کا کہنا تھا کہ حکومت اور قانون ساز اداروں کے اقدامات اور قوانین کے باعث اب خواتین اپنے ساتھ ھونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرتے ھیں ۔ مگر اب بھی زرائع ابلاغ اور دیگر اداروں کو خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بہت کچھ کرنا ھے - تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات و نشریات کامران بنگش نے کہا کہ میڈیا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہا ہے اور آئے روز مختلف ہائے زندگی کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصی پختونوں کے پروفائلینگ ہورہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس ضابط اخلاق سے کافی حد تک انسانی حقوق کے تحفظ یقینی بن جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا حکومت کا احتساب کرے اور ان پر نظر بھی رکھیں لیکن غیر جانبداری اور سچ کی تلاش کریں نہ کہ صرف منفی رپورٹنگ کریں بلکہ اچھی کاموں کو بھی اجاگر کریں تاکہ امیدیں ختم نہ ہو۔ سیکرٹری انفارمیشن کا کہنا تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں میڈیا مشکل دور سے گزر رہا ہے اور ہم اس مشکل وقت میں صحافیوں اور میڈیا ہاوسز کی ہرممکن مدد کررہے ہیں۔ صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ میڈیا ہاوسز کے ساتھ ساتھ فری لانس جرنلزم کرنے والے صحافیوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی معاونت کےلئے پروگرام شروع کرے ۔