کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر میں ہر شعبہ زندگی متاثر ہوا ہے۔ تارکین وطن کے لئے یہ سب سے زیادہ تکلیف دہ دورانیہ رہا ہے۔ مختلف ملکوں میں روزگار کے حصول کے لئے آئے ہوئے پاکستانی بھی دوسروں کی طرح اس وباء کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے۔ خاص طور پر مختلف حکومتوں نے جب اچانک لاک ڈائون کا اعلان کیا تو صورتحال اور زیادہ گھمبیر ہو گئی۔ ان حالات میں سب سے زیادہ مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی متاثر ہوئے۔ سوشل میڈیا پر نظر آنے والے مسائل نے میری توجہ ان حالات میں ایک حل کی طرف مبذول کروائی۔ ویسے بھی ایک متحرک سیاسی کارکن کے لئے لاک ڈائون ہونا یا اپنے آپ کو اپنے ہی گھر میں مقید کر لینا ایک طرح کی بیزاری تھی۔ میں نے ان حالات میں دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے پاکستان اوورسیز کمیونٹی کے نام سے تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا۔ پی او سی کو لندن میں رجسٹر کروا کر دنیا بھر میں اس کی شاخیں قائم کر دی گئیں۔ جب دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں نے پی او سی کے قیام پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے ساتھ تعاون کا یقین دلایا تو میرے دل میں خوشی کی ایک لہر اٹھی اور خیال آیا کہ ہم ضرور اپنے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ عالمی وبا جب اپنے عروج پر تھی، میں نے دنیا کے ہر ملک میں اپنے ساتھیوں کو پی او سی کے قیام اور منشور کا بتایا، میرے ساتھیوں نے میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے میرے ساتھ تعاون کا بھرپور یقین دلایا جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ پی او سی اس وقت دنیا کے تقریباً 100ممالک میں پھیل چکی ہے۔ بیشتر ممالک میں اس کی تنظیم سازی بھی مکمل ہو چکی ہے۔ دنیا بھر کی نامور شخصیات اور پاکستان کے کئی روشن ستارے اس کے فائونڈنگ ممبرز میں سے ہیں۔ ان شخصیات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ترجمان برائے مسلم کمیونٹی ساجد تارڑ، سینیٹر میاں عتیق، کرکٹرز جاوید میانداد، عامر سہیل، سلیم ملک، عبدالرزاق، فلم اسٹار جاوید شیخ، معمر رانا، جناب سعید غنی اور مظہر برلاس بھی اس کے رکن ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اس نے اپنا بنیادی ڈھانچہ بنا لیا ہے۔ میں یہاں ایک وضاحت کردوں کہ پی او سی ہر پاکستانی کی جماعت ہے۔ یہ تمام ترسیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قائم کی گئی ہے۔ یہ ہر قسم کی تفرقہ بازی سے بھی بالاتر ہے۔ اس کے رکن بننے کے لئے صرف ایک ہی شرط ہے اور وہ ہے آپ کا پاکستانی ہونا۔ اب اس کی ویب سائٹ بھی بن چکی ہے، اب آن لائن جا کر فوراً اس کے ممبر بن سکتے ہیں۔ ہم دنیا بھر میں قائم پاکستانی سفارت خانوں کی مدد کے لئے بھی تیار ہیں مگر ہمارا بنیادی مقصد اوورسیز پاکستانیوں کو درپیش مسائل کو حل کرنا ہے اگر آپ بھی اوورسیز پاکستانی ہیں اور کسی مسئلہ کا شکار ہیں تو ہمارے ساتھ رابطہ کر سکتے ہیں۔ ہم آپ کے مسئلے کے حل کے لئے بھرپور جدوجہد کریں گے۔
پی او سی کا ایک اور مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں اوورسیز پاکستانیوں کی عزت و تکریم کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ کیا جائے اور یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اوورسیز پاکستانی اپنے ملک کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔ میرا اقتدار کے ایوان میں بیٹھے لوگوں سے بھی یہی تقاضا ہے کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کی قدر کریں تاکہ ہم اپنے ملک و ملت کے لئے کام کر سکیں۔ وطن سے دور رہ کر وطن اور ہم وطنوں کی خدمت کا الگ ہی مزہ ہے۔ جب کسی دکھی ہم وطن کا غم ہلکا کرنے میں ہمارا ذرہ سا بھی کردار ہو تو اس کے دل سے جو دعائیں نکلتی ہیں وہ یہی میرا اثاثہ ہیں اور میں اس اثاثہ کو ہمیشہ قائم رکھنے کی کوشش کروں گا۔ آخر میں ایک چیز میں بتانا چاہوں گا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، یہ روش بہت غلط ہے۔ پی او سی کے قیام کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دینے کے ساتھ ساتھ عزت اور احترام دیا جائے، ہم نے ہمیشہ اپنے ملک کے لئے قربانی دی ہے۔ پی او سی اپنی کوشش جاری رکھے گی تاکہ اہلِ اقتدار اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے گلے سے لگائیں کیونکہ میں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ ہم اوورسیز پاکستانی اہل وطن سے زیادہ محب وطن ہیں۔
پاکستان زندہ باد۔
( صاحب تحریر پاکستان اوورسیز کمیونٹی گلوبل کے چیئرمین ہیں)