عذیر علی
اگر ہمارے ارد گرد ہر جگہ کچرے اور مٹی کا ڈھیر ہو تو یقیناً یہ تاثر خوش گوار نہیں لگے گا ،مگر جب ہماری زمین خلا میں موجود گرد اور پتھروں کے درمیان سے گزرتی ہے توزمین پر لوگوں کو رات میں آسمان پر ڈھیر سارے ٹوٹے ہوئے تارے نظر آتے ہیں ۔اور ان ٹوٹے ہوئے تاروں میں کبھی کبھار آگ کے گولے بھی ہوتے ہیں ۔ان کو ’’پرسیڈزشہا بیاں‘‘ کہا جاتا ہے ۔ٹوٹے ہوئے تاروں یا شہابیوں کی برسات کی شروعات دمدار ستارے ’’ سوئفٹ ٹٹل ‘‘ کے سورج کے گرد مدار میں داخل ہونے سے ہوتی ہے ۔
رائل میوزیم گرینچ کے ماہر فلکیات ایڈورڈ بلو مر کے مطابق ہر سال زمین سوئفٹ ٹٹل نامی کو میٹ یا دمدار ستارے کے سورج کے گرد مدار کو کاٹتے ہوئے گزرتی ہے ۔چناں چہ اس دمدار ستارے کا چھوڑا ہوا ملبہ ہماری زمین کی فضا میں داخل ہوجاتا ہے ۔اور جب یہ چاول کے دانے کے برابر برف ،مٹی اور پتھروں پر مشتمل ملبہ ہماری فضا کی بالائی سطح میں داخل ہو تا ہے تو یہ کچھ لمحوں کے لیے چمک اُٹھتا ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پرسیڈ کہلانے والے شہابیوں کے اس سلسلے کی خاص بات یہ ہے کہ اسے آپ ہر سال دیکھ سکتے ہیں ۔ایڈورڈ بلومر کےمطابق ویسے یہ سلسلہ اگست کے مہینے میں شروع ہوتا ہے ۔ اس سلسلے کو بغیر دور بین کے بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔چاں چہ مسلسل کئی راتوں تک آسمان کو دیکھنا کارآمد ہو سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی اس دمدار ستارے کا چھوڑا گیا کوئی بڑا ٹکڑا بھی زمین کی فضا میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ آگ کے گولے جیسا دکھائی دیتا ہے۔پرسیڈز نامی شہابیوں کا یہ سلسلہ قدرت کی آتش بازی جیسا لگ سکتا ہے اور آپ ایک گھنٹے میں باآسانی ایک سو کے قریب ٹوٹتے تارے دیکھ سکتے ہیں۔ ویسے تو یہ شہابیے زمین کی فضا میں دو لاکھ 15 ہزار کلومیٹر کی زبردست رفتار سے داخل ہوتے ہیں، تاہم ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
بلومر کے مطابق ٹوٹے تاروں کی اس برسات کو پرسیڈز اس لیے کہا جاتا ہے، کیوںکہ یہ برج پرسیئس سے نکلتے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر قدرت کے اس نظارے کو دنیا بھر کی کئی مختلف تہذیبوں نے نوٹ کیا ہے اور اس کے الگ الگ نام رکھے ہیں۔کیتھولک روایات میں انھیںسینٹ لارینس کے آنسو کہا جاتا ہے۔