شکر ہے یہ امکان یقین میں بدلتا جاتا ہے کہ اس بار انتخابات کسی بہانے کی وجہ سے بھی ملتوی نہیں ہوں گے بلکہ بروقت صلح و سکون کے ساتھ ہوجائیں گے اور بہت سی قوموں میں انتخابات ایک معمول بن چکے ہیں۔ہمارے ہاں نعوذ باللہ متعد د بار معجزہ تو نہیں کرامت کی حیثیت ضرور اختیار کرتے جارہے ہیں۔
لیکن
لیکن ان کا نتیجہ کیا ہوگا۔ کیا وہی یا ان جیسا جو پچھلے انتخابات کے بعد برآمد ہوا؟ شاید ہی کیونکہ امیدوار (بالاستثنیٰ) ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے پہلے ہوتے تھے اور جو کامیاب ہوکر اس جگہ پہنچے جہاں سے انہوں نے قوم اور وطن کو روز بروز تباہ کیا۔ خدا کرے ایسا نہ ہو۔ ہمیں امیدواروں کے پروگراموں میں کوئی بات پچھلے پروگراموں سے مختلف نظر نہیں آتی۔ جو امیدوار کھڑے ہوئے ہیں اول تو ان میں سے بیشتر کا حکومتی کردار کوئی قابل ذکر قومی خدمت نہیں دکھاتا۔ مبصر سابقہ سیاست کی کہانیاں ضرور سناتا ہے جن سے ہم واقف ہیں مگر جنہوں نے ملک و قوم سے کوئی ترقی پسند قدم نہیں اٹھوایا۔ بہرحال ہماری، ملک کی اور دنیا کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر انتخابات لازمی ہیں، انتخابات ہی واحد ذریعہ ہیں صفائی کا اور آگے بڑھنے کا گو اب تک یعنی پہلے انتخابات کے نتائج نے کوئی خاص قابل ذکر کام نہیں دکھایا۔
”قومی اصلاح اور قومی ترقی“ دراصل اندر سے اٹھتی ہے یا پھر اس وقت آتی ہے جب وہ یہ سمجھے کہ حالات بھی پہلے تبدیلی کے لئے سازگار ہیں۔ ”تبدیلی“ دوقسم کی ہوتی ہے ایک وہ جو ایک دور میں صرف نظر آئے دوسری وہ جو ہوتی ہے لازمی نہیں کہ وہ اسی وقت نظر آئے ۔جوتبدیلی ہوتی ہے اور لازماً ظہور نہیں کرتی مگر ذرا سے تصور پر سمجھ میں ضرور آجاتی ہے۔ جب سقراط کوزہر کا پیالہ دیا گیا تومعاشرے میں اندر ہی اندر بڑی تبدیلی پیدا ہورہی تھی۔ افلاطون اور ارسطو یونہی پیدا نہیں ہو گئے وہ اپنے بزرگوں ہی نہیں ان دنوں یونانی معاشرے کی پیداوار تھے ۔ برٹرینڈرسل بدلتے ہوئے انگلستانی معاشرے کی پیداوار تھے ،ژاں ژاک روسو بدلتے ہوئے فرنچ زبان بولنے والے معاشرے کی پیداوار تھا… مگر یہ سب ہم اب کہتے ہیں اس وقت تو روسو ہی حکومت سے اپنی جان بچانے کے لئے بھاگا بھاگا پھرتا تھا اور افلاطون کے استادسقراط کو تو آزادیٴ اظہار کے جرم میں حکومت نے زہر کا پیالہ پلا ہی دیا تھا۔ ایسی قربانیوں کی مثالیں بے شمار ہیں۔ آج بھی طبیعت اچھی نہیں، اس وقت صرف اتنا ہی۔معذرت