’’فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے‘ فوج کا سیاسی عمل سے براہِ راست یا بالواسطہ کوئی تعلق نہیں‘‘۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے یہ الفاظ جو انہوں نے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی جانب سے گزشتہ روز کئے گئے انکشاف کے مطابق پچھلے ہفتے سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں سے خود اپنی دعوت پر کی گئی ایک ملاقات میں کہے‘ ملک بھر میں خوشگوار حیرت کے ساتھ سنے گئے۔ اس ملاقات میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے جبکہ سیاسی رہنماؤں میں سے شہباز شریف‘ بلاول بھٹوزرداری‘ سراج الحق‘ مولانا اسعد محمود اور شاہ محمود قریشی وفود کے ہمراہ شریک ہوئے۔ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ بھی مدعوئین میں شامل تھے جس سے اس ملاقات کی بھرپور نمائندہ حیثیت پوری طرح عیاں ہے۔ آرمی چیف نے اس موقع پر صراحت کی کہ ’’حالیہ قانون سازی‘ انتخابی اصلاحات‘ سیاسی امور یا نیب کے معاملات میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں‘ یہ کام سیاسی قیادت کو خود کرنا ہے‘ پاک فوج کو سیاسی امور میں مداخلت کا کوئی شوق نہیں‘‘۔ موجودہ حکومت کے ساتھ فوج کے تعاون کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ رشید کے بیان کے مطابق جنرل باجوہ کا کہنا تھا ’’موجودہ منتخب حکومت جو کہے گی ہم وہ کریں گے‘ کل آپ حکومت میں آئیں گے ہم آپ کا بھی ساتھ دیں گے‘‘۔ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کسی بھی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے آرمی چیف نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ ’’ہم ملک میں کسی کو کوئی فساد برپا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘۔ شیخ رشید نے یہ انکشاف گزشتہ شب جیو نیوز کے پروگرام میں کیا جس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی شرکت کی۔ ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات خفیہ نہیں تھی اور سیاستدانوں کی کسی درخواست پر نہیں بلکہ آرمی چیف کی دعوت پر ہوئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے جانے کے معاملے پر مشاورت کی جانی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے یہی بات کہی ہے۔ اعلیٰ عسکری ذرائع کے مطابق بھی یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے پر سیاسی اتفاق رائے کے لئے تھی مگر اس میں دیگر سیاسی امور بھی زیر بحث آئے۔ ان ذرائع کے حوالے سے جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں ان کے مطابق عسکری قیادت نے فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ امن و امان‘ ڈیموں کی تعمیر، سیلاب، نالوں کی صفائی وغیرہ جیسے معاملات میں حسبِ ضرورت فوج ہمیشہ سول انتظامیہ کی مدد کرتی رہے گی۔ آرمی چیف نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ ’’فوج نہیں چاہتی کہ انتخابات کی ذمے داری لے۔ الیکشن کرانا، الیکشن کمیشن‘ نگراں حکومت اور انتظامیہ کا کام ہے۔ ماضی میں جب انتخابات ہوئے تنازعات اٹھتے رہے ہیںاس لیے فوج صرف سیکورٹی کی ذمے داری ادا کرے گی اوروہ بھی ان علاقوں میں جہاں انتظامیہ ضروری سمجھے گی کہ لا اینڈآرڈر کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے‘‘۔ وزیراعظم کے بعض بیانات پر ان کا کہنا تھا کہ ’’تمام سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیتے ہیں،سیاست دان سیاسی معاملات خودطے کریں‘‘۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ’’جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں،یہ نظام چلتا رہے گا‘‘۔ آرمی چیف کا یہ اظہار خیال فی الواقع قومی سیاسی صورت حال میں ایک نہایت اہم اور مثبت تبدیلی کی علامت ہے۔تجربات سے سبق سیکھ کر سمت درست کرلینا ہی ہوشمندی کی روش ہے جس کے نتائج لازماً قوموں کی زندگی میں بہتری کا باعث ہوتے ہیں۔ امید ہے کہ سیاسی معاملات سے فوج کے دور رہنے کی اس وضاحت سے الجھے ہوئے قومی معاملات میں جلد بہتری رونما ہوتی نظر آئے گی۔