اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئندہ دو ماہ کے لئے جس مانیٹری پالیسی پاکستان کا اعلان کیا ہے، اس میں شرح سود 7فیصد کی سطح پر برقرار رکھا جانا معیشت کی قابلِ اعتماد صورتحال کی طرف اشارہ ہے۔ یہ بات بجائے خود اہمیت کی حامل ہے کہ 13.5کی شرح سود کو ڈھائی ماہ کے عرصے میں 7فیصد کی سطح پر لایا گیا اور یہ سطح تاحال برقرار ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 2019کے مقابلے میں 2020کے دوران مالیاتی خسارہ میں کمی اور بیرونی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری قرضے میں اضافہ بھی جی ڈی پی کے لگ بھگ ایک فیصد تک محدود رہا۔ اس سے پالیسی سازوں کےاس موقف کی اصابت ظاہر ہوتی ہے کہ جون 2020میں گزشتہ اجلاس کے وقت کے مقابلے میں کاروباری اعتماد اور نمو کا منظرنامہ بہتر ہوا ہے۔ پاکستان میں کووڈ 19کے کیسز میں کمی، لاک ڈائون میں نرمی،تجارتی و معاشی سرگرمیوں کے اضافے سمیت حکومت، اسٹیٹ بینک اور دیگر پالیسی سازوں کی سطح پر جو فیصلے کئے گئے ان کے اچھے نتائج کا اندرون ملک ہی نہیں عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا گیا ہے۔ مہنگائی میں اگرچہ اضافہ ہوا ہے مگر درپیش صورتحال میں جس سطح پر گرانی کے خدشات ظاہر کئے جارہے تھے انہیں پیش نظر رکھا جائے تو صورتحال کو کسی حد تک گوارا کہا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مالی اقدامات کےنتیجے میں ایک طرف کاروباری افراد کو دوسری جانب کموڈٹی فنانسنگ بڑھنے سے کسانوں کو فائدہ ہوا۔ یہ سب باتیں اہم ہیں مگر عالمی برادری کے ایک رکن کی حیثیت سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے کورونا کی دوسری لہر کی پیش گوئی وطن عزیز کے لئے بھی ایسا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کی تیاری ضروری ہے۔ ہمارے پسے ہوئے طبقات جس کیفیت کا سامنا کررہے ہیں اس میں وقتی ریلیف کے پہلو نکالنے، خصوصاً بجلی کے بحران اور اضافی بلوں پر قابو پانے کی کوئی فوری تدبیر ضروری ہے۔