مرحوم پروفیسر محمّد امین طارق قاسمی کے ہاتھ سے لکھی گئی لگ بھگ دو ہزار اشعار پر مشتمل کتاب ’’جہادِ کشمیر‘‘ تحریک کشمیر کا جامع منظرنامہ ہے جس میں خطے کی تاریخ اور سیاسی صورتحال کو بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے- اسکو پڑھ کر مرحوم قاسمی صاحب کی شاعری کی بلند پائیگی، سلاست اور روانی کا اعترف ہوجاتا ہے- مرحوم پروفیسر قاسمی 1930میں ضلع پونچھ کے تحصیل حویلی میں پیدا ہوئے جو فی الوقت بھارتی عملداری والے صوبہ جموں کا حصہ ہے- ایک علمی اور مذہبی گھرانے سے تعلق کی وجہ سے آپکو برصغیر کے بڑے دینی ادارے دیوبند میں داخل کرایا گیا، جہاں سے آپ فارغ التحصیل ہوئے ہی تھے کہ آپکو مسلم کش فسادات کی وجہ سے پاکستان ہجرت کرنا پڑی- آپکی طبیعت بلوغت سے ہی کلام موزون کرنے کی طرف مائل تھی- یہی وجہ ہے کہ جب جموں و کشمیر کے طول و ارض میں ڈوگرہ حکومت کیخلاف تحریک اٹھی تو آپ نے اپنی شاعری کے ذریعہ اسمیں حصہ ڈالا یہاں تک کہ انکے سر پر ڈوگرہ حکومت نے پانچ سو روپے کی خطیر رقم کا انعام رکھا- آپ نے سترہ برس کی عمر میں 1947میں ’’جہادِ کشمیر‘‘ لکھی جو 1956میں شائع ہوئی جس پر انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے پانچ سو روپے کا انعام بھی دیا گیا- کتاب کی اشاعت میں تاخیر کے حوالے سے قاسمی صاحب دیباچے میں جن حالات کا ذکر کرتے ہیں وہ کشمیریوں کیلئے من حیث القوم ایک مشترکہ تجربہ ہے-
آپ لکھتے ہیں:’’جنوری 1950میں بعض احباب نے اشاعت کا بیڑا اٹھایا، میں نے اعتماد کرلیا مگر اس اعتماد کی سزا یہ ملی کہ ساڑھے پانچ سال کا طویل عرصہ مسودہ طاقِ نسیاں کی زینت بنا رہا- آخر بعد از خرابی بسیار اپنی سادگی اور مجبوری کا ایک معقول جرمانہ ادا کرکے واپس مل سکا- اب چونکہ یہ سفینہ کنارے سے لگ رہا ہے اس لئے خدا سے ناخداؤں کے ستم و جور کیا کہوں، ورنہ اس مجموعے کے ساتھ حالات کی ستم ظریفی، اپنوں کی بےمہری اور بیگانوں کی چیرہ دستی کی ایک دردناک داستان وابستہ ہے‘‘- کتاب میں ڈوگرہ خاندان کی تاریخ، انکے مظالم، ذبیحہ گاؤ پر پابندی، مسلم کانفرنس کا قیام، کشمیر چھوڑدو کی تحریک، 1947میں جموں میں مسلم کش فسادات سے پہلے مسلمانوں سے اسلحہ کی ضبطی، جموں میں مسلمانوں کا قتل عام، حکومت آزاد کشمیر کا قیام، شیخ عبداللہ کی رہائی اور انکا ہندوستان کے ساتھ الحاق جیسے معروف واقعات کو بڑی خوبصورتی کیساتھ اشعار میں قلمبند کیا گیا ہے- ریاست کی جبری تقسیم کےوقت حالات بڑے ناگفتہ بہ تھے جنکی انتہائی دلدوز اور سینہ سوز منظر کشی کی گئی ہے- کشمیر کی جدوجہد کے اہم حالات کو مفصل طور پر بیان کرتے ہوئے شاعر نے مسلمانان کشمیر کی تاریخ کو وضاحت سے اور ایک درد مند پیرائے میں بیان کردیا ہے جس سے شاعر کی اسوقت کی کیفیت اور جوان جذبوں کی تائید ہوتی ہے-
کتاب کا پیش لفظ آزاد جموں و کشمیر کے پہلے وزیر دفاع کرنل سید علی احمد شاہ نے 24جون 1949کو تحریر کیا جس میں وزیر موصوف لکھتے ہیں: ’’کشمیر کا مسئلہ اسوقت ایک بین الاقوامی سیاسی مسئلہ بن چکا ہے- تقسیمِ ہند کے وقت یہ بات تسلیم کی گئی تھی کہ ریاستوں کو ہندوستان یا پاکستان دونوں میں سے کسی ایک حکومت کے ساتھ الحاق کرنے کا پورا اختیار ہوگا اور ان پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا جائے گا- مگر جغرافیائی حدود اور رائے عامہ کا خیال رکھنا ضروری ہوگا- جمہوری اصولوں کے تحت اس کا یہ مطلب واضح تھا کہ کسی ریاست کے جمہور جس ریاست سے الحاق کو پسند کریں گے اس ریاست کو اسی حکومت سے ملحق کر دیا جائے گا- چنانچہ مسلمانوں نے بھی اسکا یہی مطلب سمجھا- اس فیصلہ کی رو سے کشمیر ہر اعتبار سے پاکستان کا قدرتی جزو تھا‘‘۔ آگے چل کر آپ لکھتے ہیں: ’’پاکستان کے مسلمانوں نے ہر طرح سے ہمدردی اور فرض شناسی کا ثبوت دیا ہے لیکن نہیں کہا جاسکتا کہ اس مہم کو کامیاب بنانے کیلئے ابھی ابھی مسلمانوں کو اور کتنی عظیم الشان قربانیاں دینا پڑیں گی‘‘-
ستر سال پہلے کرنل علی احمد شاہ صاحب کے پیش لفظ میں حالات و واقعات کی جو نشاندہی کی گئی تھی وہ ہنوز درست ہے بلکہ اب تو حالات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ کسی امید کا بھی سہارا دکھائی نہیں دیتا- کشمیری آج بھی ایسے ہی دور ابتلا سے گزر رہے ہیں جن کا تذکرہ شاعر نے آج سے سات دہائی پہلے کیا تھا:
ستم ہے آج وہ بستی محاذِ جنگ ہے ساری
چمن ویران ہیں لیکن زمیں گلرنگ ہے ساری
وہاں پر کوندتی ہیں بجلیاں، خنجر چمکتے ہیں
جہاں کلیاں چٹکتی تھیں وہاں لاشے سسکتے ہیں
ہوا میں رقص کرتے پھرتے ہیں بمبار طیارے
فضا میں چھوڑے جاتے ہیں آتش بار فوارے
قضا پھرتی ہے منہ کھولے ہوئے بیتاب وادی میں
اڑائی جا رہی ہے خاک اس شاداب وادی میں