اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے ’بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو اختیارات نہ دینے‘ کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کے دوران فریقین کے وکلا ء کو تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کی ہے جبکہ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت اکتوبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ بلدیاتی اختیارات صوبائی یا وفاقی حکومت کو دینا آرٹیکل 140 کی خلاف ورز ی ہے، مقامی حکومتوں کا ہونا کسی کی چوائس نہیں لازمی ہے، کراچی کا موجودہ نظام عوام کو فائدہ نہیں دے رہا، میئر کراچی نے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا،سارا کھیل طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا ہے،کیا گارنٹی ہے مقامی حکومتیں اختیارات ملنے پر کام کرائینگی۔
اختیارات کی بات کرنی ہے تو ذمہ داری اور احتساب کی بھی کرنا ہوگی، اصل مسئلہ اداروں میں رابطہ کی کمی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سندھ کا بلدیاتی نظام تین میں ہے نہ تیرہ میں، اسلام آباد میں بھی بلدیاتی اداروں کے درمیان اختیارات کا ٹکرائو رہتا ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز ’بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو اختیارات نہ دینے‘ کیخلاف پاکستان تحریک انصاف ،ایم کیو ایم پاکستان، مسلم لیگ(ن)کے دانیال عزیز سمیت دیگر فریقین کی جانب سے دائر کی گئی پانچ درخواستوں کی سماعت کی تو وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما وسیم اختر ، مسلم لیگ(ن)کے رہنما احسن اقبال اور پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عمرانہ ٹوانہ کیس میںبلدیاتی اختیارات کے حوالے سے آرٹیکل 140 کی تفصیل دی گئی ہے،بلدیاتی اختیارات صوبائی یا وفاقی حکومت کو دینا آرٹیکل 140 کی خلاف ورز ی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں لوگ سڑکوں پر مر رہے تھے،گھروں میں پانی داخل ہو چکا تھا، سڑکوں پر پانی کھڑا تھا لیکن عملہ کہیں نظر نہیں آیا، کاغذوں میں عملہ موجود ہے لیکن موقع پر دکھائی نہیں دیتا ہے، اسکا مطلب ہے کہ گھوسٹ ملازمین ہیں اور اربوں روپے تنخواہوں کی مد میں کھائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے وہ دور دیکھا ہے جب رات کو تین بجے کام شروع ہو جاتا تھا سڑکیں دھوئی جاتی تھیں،کہاں گئے ہیں وہ لوگ؟ہم قانون سازی میں آپ کی مدد کر دیتے ہیں لیکن اسکا حاصل حصول کیا ہو گا؟یہ درخواست اختیارات کے حصول یا دکھائوے کیلئے دی گئی ہے،کیا گارنٹی ہے مقامی حکومتیں اختیارات ملنے پر کام کرائیں گی، ممکن ہے بلدیاتی حکومتیں زیادہ کام خراب کر دیں،کراچی کو جو بھی نظام دیا گیا ہے، اسکے کوئی اچھے نتائج نہیں نکلے ہیں، اختیارات کی بات کرنی ہے توذمہ داری اور احتساب کی بھی کرنا ہو گی، ادارے الگ الگ ہونا اصل مسئلہ نہیں ہے، ان میں رابطے کی کمی اصل مسئلہ ہے۔
فاضل چیف جسٹس نے ایم کیو ایم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مقامی حکومت آپکی تھی آپ نے اپنے دور میں کیا کیا ؟لوگ ڈوب کر مر رہے تھے، گھر گر رہے تھے، بلدیاتی حکومت کہاں تھی؟کے ایم سی کے بیس ہزار ملازمین تنخواہیں لیتے ہیں، سڑکوں پر کیوں نہیں نظر آئے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جب حکومت میں ہو تو اختیارات دینے کو دل نہیں کرتا، حکومت میں نہ ہوں تو یہ اختیارات منتقلی کی بات کرتے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں اختیارات کی مقام حکومتوں کو منتقلی سے ہچکچا رہی ہیں،کیا آپ چاہتے ہیں کہ بلدیات کو کام کیلئے پولیس کے اختیارات بھی دے دیے جائیں؟ عدالت قانون سازی کیلئے گائیڈ لائنز دے سکتی ہے،اختیارات کے ساتھ احتساب کی بات بھی ہوگی،کراچی اسلام آباد کی نسبت ایک بڑا شہر ہے۔
اسلام آباد میں بھی اداروں کے درمیان اختیارات کا ٹکرائو رہتا ہے،اسلام آباد میں اداروں کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے،جب تک اس حوالے سے قانون سازی نہیں ہوتی اداروں کے درمیان ہم آہنگی نہیں پیدا ہوگی، شہریوں کا مفاد دیکھ کر قانون سازی ہونی چاہیے۔ دوران سماعت ایم کیو ایم کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اپنایا کہ ہماری درخواست کا اصل مقصد صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات کے حوالے سے ہے،موجودہ صورتحال میں کونسلر کا اختیار بھی وزیر اعلیٰ کو دیدیا گیا ہے۔
بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا اختیار ناظم سے لے کر سندھ حکومت کو دیاگیا ہے ،سالڈویسٹ مینجمنٹ کا اختیار بھی بلدیات سے سندھ حکومت نے واپس لے لیا ہے،دنیا بھر میں ٹائون پلاننگ کا کنٹرول بلدیاتی حکومتوں کا کام ہے، شہری مسائل کا اختیار کونسلر کے پاس ہونا چاہیے،میرے گھر کے سامنے گٹر ابل رہا ہو تو کونسلر کے پاس جا سکتا ہوں لیکن وزیر اعلیٰ تک رسائی نہیں ہے،جس پر ایم کیو ایم کے وکیل نے موقف اپنایا کہ کراچی میں ضلع ٹیکس ختم کردیا گیا۔
صوبائی فنانس کمیشن کے ذریعے بلدیاتی حکومتوں کو ادائیگی ہوئی ہے، ایم کیو ایم کی اسمبلی میں تعداد کم تھی جس کی وجہ سے ہماری بات نہیں سنی گئی ہے،سندھ کا موجودہ نظام بنایا ہی فیل ہونے کے لیے گیا ہے،سندھ بلدیاتی قانون کی شق 74 اور 75 آئین سے متصادم ہیں،شق 74 کے تحت صوبائی حکومت جو اختیار چاہے بلدیات سے واپس لے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ایم کیو ایم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ دو ہفتے بینچ دستیاب نہیں ہوگا،اپنے دلائل کو قانونی نقاط تک محدود کریں، دوران سماعت فاضل عدالت نے تحریک انصاف کی درخواست پر رجسٹرارآفس کے اعتراضات کو ختم کرتے ہوئے سندھ حکومت کو نوٹس جاری کر دیا ،اور درج بالا احکامات کے ساتھ کیس کی مزید سماعت اکتوبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔