• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قانون تحفظِ حقوق نسواں پر تو ہم بعد میں بات کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم اس قانون کے مخالفین یعنی اپنے شدت پسند بھائیوں سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ مساواتِ مرد وزن یعنی عورت اور مرد کی مساوی یا برابری کی حیثیت کو شرعی طور پر درست مانتے ہیں یا انہیں اس پر شرعی اعتراض ہے؟ اگر مانتے ہیں تو پھر اعلان کریں کہ آئندہ سے نکاح، طلاق اور قانون شہادت و وراثت میں انکے ساتھ بوجہ جنس امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائیگا کیا وہ عورت کی قیادت یا سربراہی کو چاہے وہ اندرونِ خانہ یعنی گھر کے اندر ہو یا گھر سے باہر پنچایت میں ہو، چاہے سیاست، عدالت یا حکومت میں ہو، درست تسلیم کرتے ہیں ؟ عورت چاہے کتنی متقی، عالمہ فاضلہ یا صالحہ کیوں نہ ہو ہمارے یہ بھائی اس کی قیادت کو کسی بھی اجتماعی شعبے میں کیاقبول کرنے کیلئے تیار ہیں؟ قیادت تو رہی ایک طرف ہم محض یہ پوچھتے ہیں کہ اگر ان کی اپنی خالص مذہبی حکومت قائم ہو تو کیا وہ مخلوط قومی اسمبلی یا سینیٹ کو قبول فرمائیں گے؟ وطنِ عزیز کے جو موجودہ مخلوط ادارے ہیں چاہے وہ تعلیمی، سماجی یا سیاسی ادارے ہوں یا دیگر انتظامی ادارے ان میں وہ عورت مرد کو شانہ بہ شانہ محنت کرنے یا اکھٹے کام کرنے کو کیا وہ جائز یا شرعی طور پر درست قرار دیتے ہیں؟ اس سے بھی آگے بڑھ کر ہم عورت کی مظلومیت واضح کرنے کیلئے اپنے شدت پسند بھائیوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر کسی مرنے والے کا ایک ہی بیٹا ہو تو جس طرح اس کی تمام جائیداد اسے منتقل ہو جائے گی تو کیا بیٹی کی صورت میں بھی آپ یہ اصول قبول فرمائیں گے؟ ہم عرض کرتے ہیں کہ اگر آٹھ دس بیٹیاں بھی ہوں تب بھی آپ ان کی اس وراثتی حیثیت کو تسلیم کریں گے جو اکلوتے بیٹے کی صورت قبول کر رہے ہیں؟ لیکن آپ کو اس میں ذرا بے انصافی دکھائی نہیں دیتی ہے آخر کیوں؟
بعض شدت پسندحضرات نے عورت کو صدیوں سے گھر میں بٹھا رکھا ہے ان کا بس چلے تو اسے باپ کے مرنے پر بلا اجازت خاوند گھر سے نکلنے کی اجازت بھی نہ دیں لیکن لبرل حلقوں کا سوال یہ ہے کہ اگر گھر میں ہی اس کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے خاوند ظالم اور بد تہذیب ہے موقع بے موقع اسے گالم گلوچ کرتا ہے یا ا پنے حکم کی تعمیل نہ کرنے پر اسے بغیر داغ دئیے مارتا پیٹتا ہے تو ایسی صورت میں وہ کہاں جائے؟ کس سے فریاد کرے؟ رشتہ داروں سے، جو بالعموم تماش بین ہوتے ہیں اگر وہاں بھی شنوائی نہیں ہوتی تو وہ کس کا دروازہ کھٹکھٹائے؟ کیا ہمارے ملکی قانون میں اتنی جان نہیں ہونی چاہئے کہ اس دکھیاری کا دکھ سن سکے اور اسے کچھ تحفظ فراہم کر سکے؟ دراصل قانون تحفظ حقوق نسواں کی ضرورت ایسی ہی صورتحال میں درپیش ہوتی ہے۔ مجوزہ قانون ان مجبور، مظلوم ، کمزور دکھی عورتوں کے حقوق کو تحفظ دینے کی ہلکی سی کاوش قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ہمارے بعض مذہبی علماء اس کے خلاف یوں صف آراء ہوئے ہیں جیسے کفروالحاد دنیا میں غالب آنے والا ہے ۔یہ سب اس قانون کے خلاف یوں اکٹھے ہو رہے ہیں کہ جیسے عورت کو تحفظ دینے والے قانون سے مذہب خطرے میں ہے بچائو بچائو دوڑو دوڑو۔ حالانکہ ہماری نظر میں یہ قانون بھی انتہائی کمتر ہے کم ازکم اس میں ایک شق یہ شامل ہونی چاہئے تھی کہ اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو طلاق دے تو اپنی آدھی جائیداد بھی اسے دینے کا پابند ہو گا جس کے سہارے وہ اپنی اگلی زندگی گزار سکے۔ بظاہر ان کا جواز کتنا بے ضر ر ہے کہ اس سے عورتوں مردوں میں بد گمانیاں بڑھ جائیں گی یہ کہ اس سے خاندانی نظام ختم ہو جائے گا حکومت کا نہیں خاندان کے بزرگوں کا یہ حق ہے کہ وہ ایسی عورتوں کی فریاد سنیں۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اس قانون نے خاندان کے بزرگوں پر کب قدغن لگائی ہے کہ وہ مظلوم خواتین کی فریاد نہ سنیں۔۔ جن گھروں میں تہذیب اور شائستگی ہے ان کے تو یہ مسائل ہی نہیں ہیں جہاں بزرگوں کی سنی جاتی ہے وہاں پر تو وحشت کی یہ چنگاریاں اٹھتی ہی نہیںہیںیہ قانون تو محض ایسی بد نصیب عورتوں کے لئے تجویز کیا گیا ہے پورے خاندان میں جن کی سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔
ہم سب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری روایتی مذہبی سوسائٹی میں عورت کی حیثیت کمتر سمجھی جاتی ہے۔ کسی کے گھر میں تیسرا چوتھا بیٹا پیدا ہو جائے تو وہ خوشی سے چھلانگیں مارتا پھرتا ہے لیکن اگر بد قسمتی سے تیسری چوتھی بیٹی پیدا ہو جائے تو اچھے بھلے گھر میں ’’پھوڑی‘‘ پڑ جاتی ہے بظاہر زبان سے اس کا اعتراف کریں نہ کریں لیکن زبانِ حال چیخ رہی ہوتی ہے کہ ہائے یہ کیا ہو گیا بیٹیوں والا ہمارے سماج میں ’’بیچارہ‘‘ کہلاتا ہے ۔بیٹے کے حصول کی خاطر لوگ بچے پیدا کرتے چلے جاتے ہیں آبادی میں خوفناک حد تک جو اضافہ ہو رہا ہے اس میں ایک بڑا فیکٹر بیٹیوں کے بالمقابل بیٹے کا حصول ہے پھر بیٹوں کی جوڑیاں بنانے کی خواہش اس پر مستزاد ہے۔جس مغرب کو ہم اٹھتے بیٹھے کو سنا اپنا مذہبی فریضہ خیال کرتے ہیں آخر وہاں اس نوع کے سماجی رویے کیوں نہیں ہیں؟ امریکی صدر باراک اوباما کی دو بیٹیاں ہیں بیٹا کوئی نہیں سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی محض ایک بیٹی تھی بیٹا کوئی نہ تھا اسی طرح سابق صدر بش کی بھی محض دو بیٹیاں تھیں بیٹا کوئی نہ تھا ہمارے ہاں ایسی صورتحال میں رونا پیٹنا شروع ہوجا تا ہے ۔ آخر مغرب میں یہ رویے کیوں نہیں ہیں؟اب کہا جا رہا ہے کہ عورتوں کے بالمقابل مرد بھی مظلوم ہوتے ہیں ہم عرض کرتے ہیں کہ آخر مستثنیات کس قانون میں نہیں ہوتیں لیکن قوانین عمومی رویوں پر بنتے ہیں جو سوسائٹی کے کمزور اور دبے ہوئے طبقات کو سہارا دینے کے لئے ہوتے ہیں ۔کسے نہیں معلوم کہ عورت مرد کے بالمقابل جسمانی طور پر کمزور ہے لیکن کمزور کو سہارا دینے کی بجائے ذلیل تو نہ کریںہم نے ربع صدی تک بحیثیت چیئرمین مصالحتی و ثالثی کونسلز کام کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ عورت کل بھی مظلوم تھی ، عورت آج بھی مظلوم ہے اور اگرہم نے مرد کی روایتی برتری جیسے تصورات ختم نہ کئے تو عورت ہماری مسلم سو سائٹی میں آئندہ بھی مظلوم ہی رہے گی اس سے بڑی بے حسی اور کیا ہو سکتی ہے۔ہم اپنی معزز خواتین کی خدمت میں بھی یہ عرض کرتے ہیں کہ وہ تعلیم کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر معاشی خود کفالت کی منزل تک پہنچیں کیونکہ نیچے والا ہاتھ ہمیشہ کمتر ہی رہتا ہے اور مرد انگی کے تفاخر میں مبتلا لوگوں سے بھی کہتے ہیں کہ اگر آپ کماتے یا خرچ کرتے ہیں تو عورت کے بالمقابل یہ کوئی ایسا کارنامہ ہرگز نہیں ہے جس کو بنیاد بنا کر آپ اپنی برتری اور عورت کی کمتری کا ڈھنڈورا پیٹیں۔ مت بھولیں کہ آپ نے بھی کسی خاتون ہی کی کوکھ سے جنم لیا ہے ۔بچہ جننے اور پالنے پوسنے کی جواذیت ایک عورت سہتی ہے تخلیق کا یہ وصف عورت کے لئے ایسی ابدی عظمت ہے کہ روزی کمانے کی ہزار کاوشیں اس عظمت کے سامنے ہیچ اور سرنگوں ہیں۔
kk
تازہ ترین