شیخ رشید احمد کی طرز سیاست اور طرز گفتگو سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور میں بھی ان کی سیاست کے نقادوں میں شامل ہوں لیکن اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ وہ سر تا پا سیاست ہیں ۔لڑکپن سے سیاست شروع کی اور سیاست کرتے کرتے اب جب بزرگوں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں، تو بھی نوجوان سیاستدانوں سے زیادہ متحرک ہیں۔
حالیہ دنوں میں ان کی کتاب ’’لال حویلی سے اقوام متحدہ تک‘‘ شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے بعض اعترافات کئے ہیں۔ یہ اعترافات یوں مزید اہم ہوجاتے ہیں کہ ان کے تناظر میں موجودہ سیاسی ہل چل کے پس منظر کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
شیخ صاحب اپنی کتاب کے صفحہ 196نواز شریف کی پہلی حکومت ، جس میں شیخ صاحب بھی وزیر تھے، سے متعلق لکھتے ہیں کہ:
’’دنیا کے اہم ممالک میں ہمارے سفیروں کے دوروں کی کارکردگی کوئی تسلی بخش نہیں تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ایران میں رفسنجانی سے جنرل اسلم بیگ کی معاملہ بندی سےنواز شریف بے خبر تھے‘‘ ۔
آگے جاکر شیخ رشید احمد صفحہ 199پر میاں نواز شریف کی طرز حکمرانی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
’’میں نے نواز شریف کے اندر سڑکوں، ریلوے لائنوں، ایئرپورٹوں، صحت افزامقامات کے قیام، سیاحت میں اضافے اوراسپتالوں کی بہتری کیلئے تڑپ دیکھی ہے۔ سیلاب کے دوران بھی متاثرین میں امداد کی تقسیم پر سرتاج عزیز کو شدید اعتراضات تھے لیکن نواز شریف نے سختی سے گاؤں گائوں اور قریہ قریہ امدادی رقم پہنچائی۔
نواز شریف سیلاب سے ٹوٹے ہوئے مکانوں کی اینٹوں میں گارا لگاتے یا کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہونے پر اس کے گائوں میں ہیلی کاپٹر اتارتے اور سیلاب کے دوران جان ہتھیلی پر رکھ کر جہاں ہیلی کاپٹر نہیں اترتا تھا، وہاں پہنچتے۔ تین چیزیں نواز شریف کے پاکستان کے لیے ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھیں۔اسحاق خان کے ارادوں کو وہ بہت پہلے بھانپ چکے تھے۔ جنرل آصف نواز اورجنرل اسلم بیگ کی سرگرمیاں انہیں پریشان رکھتی تھیں‘‘۔
شیخ رشید احمد نے موجودہ کابینہ میں شامل اپنے ساتھی وزیر خسرو بختیار اور پی ٹی آئی کے رہنما خورشید محمود قصوری کے بارے میں نہایت سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ انڈیا کے راگ الاپتے تھے۔ اپنی کتاب کے صفحہ 290پر وہ لکھتے ہیں کہ:
’’خسرو بختیار میرے نزدیک بچہ تھا، اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اس وقت ایک وزیرا سٹیٹ تھا لیکن قصوری اور خسرو بختیار دونوں انڈیا کاراگ الاپ رہے تھے۔ وہ انڈیا کی دوستی کی خاطر پاکستانی لاشوں اور پاکستان کے ساتھ زیادتی پر بھی ہاتھ ہلکارکھنا چاہتے تھے‘‘۔
شیخ رشید نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ 2014کے دھرنوں کی پلاننگ لندن میں ہوئی تھی لیکن عمران خان اور طاہرالقادری تردید کرتے رہے۔ صفحہ 320پر شیخ صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’عمران خان اور طاہر القادری دونوں انقلاب اور آزادی کی جدوجہد کے لیے کوشاں تھے اور ایک ایسی ملاقات ان کے درمیان لندن میں ہوئی جس کی ان دونوں لوگوں نے تردید کی‘‘۔
شیخ صاحب نے اپنی کتاب میں ایک اہم ترین انکشاف یا اعتراف یہ کیا ہے کہ قومی اسمبلی اور پی ٹی وی پر چڑھائی کا فیصلہ سب نے (عمران خان، طاہرالقادری اورشیخ رشید ) مل کر کیا۔صفحہ 323 اور 324 پر دھرنوں کے بارے میں شیخ صاحب لکھتے ہیں کہ :
’’جب ہم نے فیصلہ کیا کہ شام کو ہم نے قومی اسمبلی اور پی ٹی وی کی طرف چڑھائی کرنی ہے اور طاہر القادری اور عمران خان کا ایک متفقہ پڑاؤ ختم ہوگیا۔
ہم جب روانہ ہوئے تو پولیس نے بہت ہی خوفناک قسم کا حملہ کیا اور بہت شدید لاٹھی چارج کیا۔ گولیاں چلیں اور پھر اس میں کچھ لوگ شہید ہوئے لیکن رستہ نہ روکا جا سکا۔۔۔ جب ہم قومی اسمبلی اورپی ٹی وی کے دفتر کی طرف جا رہے تھے تو اس وقت جاوید ہاشمی نے عمران خان کو روکنے کی کوشش کی اور بہت سمجھایا لیکن عمران خان بضد تھے کہ انہوں نے جانا ہے، اس پر جاوید ہاشمی خفا ہوکر کنٹینر سے اتر گئے ۔
میرا خیال ہے کہ وہ اس کے بعد کنٹینر پر نہیں آئے۔ جب عمران خان سول نافرمانی کی بات کرتے تھے تو میں نے ان سے گزارش کی کہ آپ کم از کم سول نافرمانی کی بات نہ کریں ۔اگر کل ہماری حکومت آتی ہے تو لوگ ہمیں طعنے دیں گے اور خاص طور پر آپ جملوں میں ایسے الفاظ استعمال کر جاتے ہیں جس کی کل آپ کو قیمت چکانا پڑے گی۔جب انھوں نے پوچھا کہ کون سا جملہ میں نے کہا ہے تو میں نے کہا کہ آپ نے انگلی کا اشارہ کیا ہے۔ اس پر وہ ہنس پڑے ۔
میں نے اندازہ لگایا کہ عمران خان کو اس سے کوئی فکر نہیں کہ انہیں کوئی کیا مشورہ دیتا ہےیا لوگ کیا کہتے ہیں، وہ عمران خان اس بات کیلئے ذہنی طور پر تیار تھے کہ نواز شریف کی حکومت کو ہر صورت ختم کیا جائے۔ ان کی اسمبلی کے استعفے ہوں تو وہ مہم چلائیں۔سابق فوجیوں کی تنظیم نے بھی نئے انتخابات کا مطالبہ کردیا۔
بالآخر الطاف حسین نے بھی نئی اسمبلی کے بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس عرصے میں اگست کے آخری دنوں میں راحیل شریف اور طاہرالقادری کی بڑی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ اور وہ فوٹو چھپی جس میں جہانگیرترین گاڑی چلا رہے تھے اور عمران خان فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے ان کے چہرے کی خوشی کا اظہار بتا رہا تھاکہ تحریک اپنی کامیابی سے ہمکنار ہونے جا رہی ہے۔لیکن عمران خان کی تحریک کا اور طاہرالقادری کی تحریک کا اب حل ڈھونڈا جا رہا تھا کہ کس طرح عدلیہ کے ذریعے اس کا فیصلہ کیا جائے اور راحیل شریف کی طرف سے یہ رائے آئی کہ ججوں کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو اس مسئلے کو دیکھے اور اس کا حل نکالے‘‘۔
آج کل ہم لوگ مولانا فضل الرحمٰن سے درخواست کررہے ہیں کہ وہ مذہبی کارڈ استعمال نہ کریں جبکہ حکومت ان پر تنقید کررہی ہے کہ وہ مذہبی کارڈ استعمال کررہے ہیں لیکن اس کتاب میں شیخ صاحب نے بڑے فخریہ انداز میں نواز شریف حکومت کے خلاف مذہبی کارڈ کو استعمال کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ صفحہ 339پر شیخ صاحب رقم طراز ہیں کہ :
’’اس تحریک میں ایک اور فائدہ ہوا کہ میں نے قومی اسمبلی میں زاہد حامد کے خلاف زبردست تقریر کی۔ میں نے یہ کہا کہ زاہد حامد کے قادیانیوں کے ساتھ روابط ہیں، زاہد حامد کے خلاف پوری قوم اکھٹی ہوگئی۔ زاہد حامد کے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
زاہد حامد اتنے ڈرے ہوئے تھے کہ انہوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ زاہد حامد سے میری قومی اسمبلی میں جھڑپ بھی ہوئی۔ زاہد حامد نے اپنی صفائی دینے کی کوشش کی لیکن میں زاہد حامد کو اس سازش میں ملوث سمجھتا تھا، اس لئے میں زاہد حامد کے استعفے سے پیچھے نہیں ہٹا اور مذاکرات اور معاملات میں زاہد حامد کا استعفیٰ شامل تھا۔ جو بالآخر اس کو دینا پڑا‘‘۔