ماہرین فلکیات خلا میں نت نئی چیزیں در یافت کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں امریکی سائنس دانوں نے چاندپر زنگ (rust) دریافت کیا ہے جواس کی قطبین پر زیادہ ہے اور دیگر مقامات پر کم مقدارمیں موجود ہے۔ یہ دریافت اس لیے حیران کن ہے ،کیوںکہ چاندپر زنگ دو اجزا ء کی وجہ سے لگتا ہے ایک پانی اور دوسرا آکسیجن ۔ان دونوں میں سے وہاں کوئی بھی موجود نہیں ہے لیکن وہاں پھر بھی زنگ دریافت ہوا ہے ۔یہ تحقیق جیٹ پر وپلشن لیبارٹر ی اور پانچ امریکی تحقیقی اداروں نے ناسا کی سر برا ہی میں مشتر کہ طور پر انجام دی ہے ۔
ان میں نصب آلات سے کیے گئے طیفی تجزیوں سے چاند کے قطبین پر آئرن آکسائیڈ کی ایک خاص قسم ’’ہیماٹائٹ‘‘ کی موجودگی کا انکشاف ہوا جسے آسان الفاظ میں ’’زنگ کا جڑواں‘‘ بھائی بھی کہا جاسکتا ہے، کیوں کہ اس کا بنیادی کیمیائی فارمولا وہی ہے جو زنگ کا ہوتا ہے۔ماہر ین کے مطابق چاند پر یہ زنگ دراصل ’’ہیماٹائٹ‘‘ نامی ایک معدن کی شکل میں ہے جو زمین پر لوہے کی قدرتی کچ دھات میں بکثرت پائی جاتی ہے۔آکسیجن اور پانی نہ ہوتے ہوئے بھی چاند پر زنگ کیوں موجود ہے؟
اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ چاند تک پہنچنے والی ہائیڈروجن (جو پانی کا اہم جزو بھی ہے) غالباً سورج سے آنے والی ’’شمسی ہواؤں‘‘ کے ساتھ وہاں پہنچی ہوگی جب کہ چاند پر آکسیجن کے بارے میں اندازہ ہے کہ یہ زمین کے بالائی کرۂ ہوائی میں موجود تھی جسے زمینی مقناطیسی میدان نے دھکیل کر چاند تک پہنچا دیا،کیوں کہ چاند کا وہ حصہ جو ہمیشہ زمین سے مخالف سمت میں رہتا ہے، اس پر زنگ موجود نہیں جب کہ صرف اسی حصے میں زنگ دریافت ہوا ہے جو اپنا رُخ زمین کی طرف رکھتا ہے۔ابھی ان باتوں کی تصدیق کے لیے مزید تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے ،اس کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہا جاسکتا ہے ۔