• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وسائل میں اضافہ کے باوجود راولپنڈی میں ڈینگی کنٹرول نہ ہو سکا

راولپنڈی(راحت منیر/اپنے رپورٹر سے)محکمہ صحت ضلع راولپنڈی کی لاپرواہی اور بد انتظامی کے باعث ایک بار پھر انٹی ڈینگی مہم کیلئے بھرتی سینٹری پٹرول خواتین اور مرد ورکرز تربیت یافتہ ہونے کے باوجود تنخواہیں نہ ملنے  کیخلاف سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہوچکے ہیں۔کمشنر اور ڈی سی او دفاتر کے باہر احتجاجی مظاہروں کے بعد اب مری روڈ پر احتجاج کیلئے منصوبہ بندی کررہے ہیں۔لیکن محکمہ صحت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔سیاسی سفارشیوں تقرریوں اور نااہل افراد کو انٹی ڈینگی مہم کی ذمہ داریاں دینے کے باعث وسائل اور افرادی قوت ہونے کے باوجود آج راولپنڈی میں ڈینگی کی صورتحال 2010ء کے مقابلے میں خراب ترین ہے۔گزشتہ چھ برسوں کی انٹی ڈینگی مہم میں صرف2012ء ایک سال ایسا رہا ہے جبکہ راولپنڈی میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد زیرو تھی۔اس کے بعد یہ تعداد پہلے سینکڑوں اور اب ہزاروں میں آتی ہے۔2010-11ء کے برسوں میں سپرے مشینیں اور فاگنگ مشینیں بھی سرکاری بجٹ کی بجائے سماجی شخصیات نے عطیہ کی تھیں۔ملازمین خاص طور پر سپرے اور فاگنگ کرنے والے نہ ہونے کے برابر تھے۔لیکن کیسز کم اور صورتحال کنٹرول میں رہی۔اب سرکاری وسائل کا یہ عالم ہے کہ2015ء کی انٹی ڈینگی مہم میں پی او ایل کا خرچہ بھی ایک کروڑ کے قریب بتایا جارہا ہے۔اس کے باوجود محکمہ صحت بیگار کیمپ نظر آرہا ہے کیونکہ نکالے گئے سینٹری پٹرول الزام عائد کررہے ہیں کہ ان کو چھ/سات ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ ذرائع کے مطابق2010ء میں راولپنڈی میں کل12ٹیمیں تھیں۔جو12ڈاکٹروں کی سربراہی میں تھیں۔ اور کوئی اینٹامالوجسٹ نہیں تھا۔ان کے پاس کوئی سپرے مشین یا فاگنگ مشین تھی۔اور ڈینگی مریضوں کی تعداد60/65تھی۔2011-12ء میںراولپنڈی کی دو مشہور مٹھائی کی دوکانوں کے مالکان نے 2فاگنگ مشین لے کر دی تھیں۔110میل سینٹری پٹرول بھرتی کئے گئے تھے۔دوائی کالج روڈ کے ایک فوڈ ریسٹورنٹ نے لے کر دی تھی۔تب  لاہور میں250ہلاکتیں اور مریضوں کی تعداد30ہزار تھی لیکن 2011ء میں راولپنڈی میں کل کیسز250 تھے۔مین پاور کے نام پر2014میں فی میل سینٹری پٹرول کی بھرتی کے ساتھ ساتھ راول ٹائون اور کینٹ کیلئے دو نئی آسامیاں ڈپٹی ڈی ایچ اوز کی منظوری لی گئی۔2015میں وزیر اعلی پنجاب سے 1067سینٹری پٹرول خواتین و مردوں کی بھرتی کیلئے خصوصی اجازت لی گئی مگر اسی برس ساری خانہ پوری کرکے راولپنڈی کو ڈینگی کا گڑھ بنادیا گیا۔گزشتہ برس4ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔اس وقت محکمہ صحت کے پاس75فاگنگ مشین،350سپرے پمپس ہیں۔ایک ہزار میل  550کے قریب فی میل سینٹری پٹرول ہیں۔2010-11ء میں پی او ایل کا بل ساڑھے سات ہزار تھا جو آج ایک کروڑ روپے ہے۔اس کے باوجود ڈینگی بے قابو اور سینٹری پٹرول تنخواہ کیلئے سڑکوں پر ہیں۔سینٹری پٹرولز مظہر قریشی،حدیجہ راشد اور دیگر کا کہنا ہے کہ ان کو89دنوں کیلے بھرتی کرکے بار بار توسیع دی گئی اور اب ان کو چھ/سات ماہ ہوچکے ہیں۔لیکن تنخواہ نہیں دی گئی۔ان کو نکال کر اب انگوٹھا چھاپ سٹاف سیاسی سفارش پر رکھا گیا ہے۔اس سے بھی بڑھ کر پنجاب حکومت نے جن ڈاکٹروں اور عملہ کو سرکاری خرچ پر سری لنکا اورتھائی لینڈ میں ڈینگی سے تمٹنے کی تربیت دلانے پر کروڑوں روپے خرچ کئے تھے ۔وہ بھی انٹی ڈینگی کا کام نہیں کررہے یا ان سے کام لیا نہیں جارہا ہے۔یس سر افسران کو ذمہ دار بناکر کس کو فائدہ دے کر عوام کا نقصات کیا جارہا ہے۔اس کا جواب وزیر اعلی پنجاب کو ڈھونڈناچاہیے۔انہوں نے کہا کہ ایک صوبائی وزیر ٹی اے ڈی اے کے چکر میں ہفتہ میں ایک دن آبائی علاقے میں جاتے ہوئے راولپنڈی میں ڈینگی کی یاد تازہ کرجاتے ہیں۔ مشیر صحت بھی راولپنڈی یاترا پر آجاتے ہیں۔جن کو خوبصورت کمپیوٹرائزڈ اعدادوشمار دکھا کر مطمئین کردیا جاتا ہے۔خرچہ اور ملازمین بڑھنے کے باوجود ڈینگی بڑھنے کا جواب کوئی نہیں مانگتا۔نہ کوئی یہ پوچھتا ہے کہ آئے روز سینٹری پٹرولز سڑکوں پر آکر جو احتجاج کررہے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے۔ فنڈز کہاں جارہے ہیں۔تنخواہیں بھی ملازمین کونہیں ملیں تو خرچہ کس چیز پر کیا گیا ہے۔ذرائع کا کہناہے کہ جس دن ان سوالوں کا جواب حاصل کیا جائے گا ۔اسی دن ڈینگی بھی کنٹرول میں آجائے گا۔کیوں کہ رواں برس ابھی ڈینگی سیزن شروع نہیں ہوا لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ کوئی تیاری یا منصوبہ بندی نہیں ہے۔اور ہوش کے ناخت نہ لئے گئے تو نقصان بڑھ سکتا ہے۔ 
تازہ ترین