اردو زبان کے استعمال میں معیار کا اب کیا عالم ہے اس کا اندازہ یوں لگایئے کہ اب اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی ’’اسلام ‘‘ اور ’’السلام‘‘ میں کوئی فرق نہیں روا رکھتے اور دونوں کو ایک ہی طرح لکھتے ہیں۔ یعنی السلام علیکم کو اب اکثر لوگ ’’اسلام ‘‘علیکم لکھتے ہیں۔ بعضے تو اس کے بیچ میںاضافی واو بھی لگادیتے ہیں یعنی اسے اسلام وعلیکم لکھ دیتے ہیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ ’’السلام ‘‘ کو کیا پڑھتے ہوں گے ؟ مثلاً انبیاء کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام لکھا جاتا ہے (جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام )۔’’ دارُالسلام ‘‘جیسی تراکیب یہ لوگ شاید پڑھ ہی نہیں سکتے ہوں گے حالانکہ بظاہر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔
یہ گڑ بڑ اس لیے بھی ہوتی ہے کہ السلامُ علیکم میںلام غیر ملفوظی ہے یعنی اس کا تلفظ نہیں کیا جاتا ۔ گویا ایسے مرکبات میں لام لکھتے ہیں پڑھتے نہیں ہیں اور لام کے بعد والے حرف پر تشدید پڑھی جاتی ہے، اسی لیے السلامُ علیکم کا تلفظ ’’اَس سلامُ علیکم ‘‘ کیا جائے گا (دراصل السلامُ علیکم میں میم پر پیش ہے جس کوغلطی سے واو لکھ د یاجاتا ہے )۔ السلام علیکم کے معنی ہیں تم پر سلامتی ہو۔اسی طرح دارُالسلام لکھیں گے اور اسے پڑھیں گے دارُس سلام ، یعنی ’’دار‘‘ کے بعد اور’’سلام ‘‘سے پہلے الف اور لام لکھیں گے ضرور لیکن پڑھیں گے نہیں۔
یہاں الف اور لام دونوں غیر ملفوظی ہیں ۔گویایہاں ان کا تلفظ نہیں کیا جائے گااگرچہ یہ املا میں شامل رہیں گے۔ دارُالسلام کے معنی ہیں سلامتی کا گھر،وہ مقام جہاں کوئی پریشانیوں اور دشمنیوں سے محفوظ ہو ۔اس کے ایک معنی جنت کے بھی ہیں ۔ جنت کے ایک درجے کا نام دارالسلام ہے۔ افریقی ملک تنزانیہ کے ایک شہر کا نام بھی دارالسلام ہے۔
اسی طرح بعض ناموں کے ضمن میں یہ ہے کہ ان میں لام لکھتے ہیں پڑھتے نہیں ہیں ، مثلاً عبدالسلام کو عبدُس سلام پڑھناچاہیے۔ اسی طرح عبدالرحمٰن اور عبدالستار جیسے ناموں کا تلظ ہم نے اچھے خاصے معقول لوگوںکو بھی غلط طور پر عبدُل رحمٰن اور عبدُل ستار(یعنی لام کے تلفظ کے ساتھ) کرتے سنا ہے حالانکہ یہاں الف اور لام دونوںغیر ملفوظی ہیں۔ اصول یہ کہتا ہے کہ یہاں الف اور لام لکھے جائیں گے لیکن پڑھے نہیں جائیں گے اور لام کے بعد والے حرف پر تشدید پڑھی جائے گی ۔
یعنی عبدالرحمٰن میں الف اورلام نہیں پڑھیں گے اور ’’رے ‘‘ کوتشدید کے ساتھ (یعنی دوبار) پڑھیں گے ۔ اس طرح عبدالرحمٰن کا درست تلفظ ’’عبدُر رحمان‘‘ ہوگا اورعبدالستار میں چونکہ ستّار کی ’’ت ‘‘ پر بھی تشدید ہے اس لیے اس کا درست تلفظ ’’عبدُس ست تار ‘‘ ہوگا ۔ گویا عبدالستار میں بھی الف اور لام کا تلفظ نہیں ہوگا اور سین پر تشدید پڑھی جائے گی(اور ت پر تشدید تو اس میں ہے ہی)۔
اس طرح کے الفاظ کے تلفظ کے سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ عربی میں کُل اٹھائیس (۲۸) حروفِ تہجی ہیں جن میں سے نصف یعنی چودہ(۱۴) شمسی ہیں اور بقیہ نصف قمری ۔ شمسی حروف( مثلاً ر،س ، ش ، ض، ن وغیرہ) سے قبل لکھے ہوئے لام کا تلفظ نہیں کیا جاتا ۔ اس کو اس طرح واضح کیا جاسکتا ہے:
ال+شمس =الشمس (تلفظ : اش شمس، لام نہیں پڑھیں گے)
لیکن قمری حروف سے پہلے لام کا تلفظ کیا جائے گا ، مثلاً:
ال+قمر=القمر (تلفظ ال قمر، لام پڑھیں گے)
’’ب‘‘ قمری حرف ہے اور اسی لیے عبدالباری کا تلفظ لام کے ساتھ کیا جائے گا یعنی اسے عبدُل باری پڑھیں گے(الف البتہ غیر ملفوظی ہوگا)۔اسی طرح چونکہ قاف ، کاف اور جیم قمری حرف ہیں لہٰذا عبدالقادر ، عبدالکریم اور عبدالجبار میں لام کا تلفظ ادا ہوگا۔اسی طرح رئوف الرحیم ،سیرۃ النبی اور بدرالدجیٰ جیسی تراکیب میں الف اور لام دونوں غیر ملفوظی ہوتے ہیں(یعنی اِن تراکیب کو تشدید کا خیال رکھتے ہوئے رئو ف ُر رحیم ،سی رَتُن نبی اور بدرُددُجیٰ پڑھنا چاہیے) ۔ ’’دال ‘‘ چونکہ شمسی حرف ہے اس لیے بدرالدین میں بھی الف اور لام کا تلفظ نہیں کیا جائے گا ، یعنی بدرُد دین پڑھیں گے۔ زیب النسا میں بھی الف اور لام نہیں پڑھیں گے لیکن نسا کے نون کومُشدّد کردیں گے یعنی تشدید لگادیں گے ، مراد یہ ہے کہ زیب النسا کو زیبُن نسا پڑھنا چاہیے ۔
شمسی حروف یہ ہیں : ت، ث ، د، ذ، ر، ز، س، ش، ص، ض، ط،ظ، ل،ن۔
قمری حروف یہ ہیں: الف، ب، ج، ح، خ،ع، غ، ف، ق، ک، م، و، ہ، ی۔
ایک اہم بات جو السلام علیکم کے سلسلے میں یاد دلانی ضروری ہے یہ ہے کہ بعض لوگ سلام کرتے ہوئے السلام (یعنی اَس سلام) کہنے کی بجاے ’’سام علیکم ‘‘یا ’’السّام علیکم‘‘ (یعنی اَس سام علیکم) کہتے ہیں۔ یہ افسوس ناک بات ہے کیونکہ ’’سام‘‘ کے معنی عربی میں موت کے ہیں اور السام علیکم کا مطلب ہوگا تم پر موت ہو(نعوذ باللہ ) ۔ اسلام کے ابتدائی زمانے میں مسلمانوں کے دشمن جان بوجھ کر مسلمانوں کوالسّام علیکم (تم پر موت ہو ) کہتے تھے اور ایسے دشمنانِ اسلام کے سلام کا جوا ب ’’وعلیکم ‘‘ (یعنی تم پر بھی )ہی ہوسکتا ہے۔