کراچی (اسٹاف رپورٹر) وفاقی وزارت داخلہ نے دو سال تاخیرکے بعد ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں نام درج یا خارج کرنےکیلئے نیب کی پالیسی اختیار کرنے سے انکار کرتے ہوئے بتایاہےکہ ہمارے پاس باضابطہ طورپر قانون موجود ہے، عدالت نے وزارت داخلہ کی رپورٹ کو ریکارڈ پر لیتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا۔ جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو سیکشن آفیسر وفاقی وزارت داخلہ محمد اعظم پیش ہوئے اور ایگزٹ کنرول لسٹ میں نام کے اندراج اور اخراج کیلئے اپنی پالیسی جمع کرائی جس میں بتایاگیاکہ وزارت داخلہ کےپاس جو بھی کیس آتا ہے اس پر ایگزٹ فرام پاکستان کنٹرول آرڈیننس 1981 اور رول 2010 کے تحت کارروائی کی جاتی ہے، ای سی ایل میں نام شامل کرنےکیلئے سپریم کورٹ، پانچوں ہائیکورٹس اور بینکنگ کورٹس کے احکامات موصول ہوتے ہیں جبکہ نیب، ایف آئی اے،صوبائی ہوم ڈیپارٹمنس، وفاقی وزارتوں، ڈیفنس ہیڈکوارٹر اور قانون نافذ کرنےوالے اداروں کی جانب سے بھی درخواستیں موصول ہوتی ہیں ان احکامات اور درخواستوں کو آرڈیننس اور رول کے مطابق وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کو بھیج دی جاتی ہے یہ ذیلی کمیٹی وزیراعظم پاکستان، معاون خصوصی برائے وزیراعظم اور سیکرٹری داخلہ پر مشتمل ہوتی ہےجو اپنی سفارشات ترتیب دیکر وفاقی کابینہ کی منظوری کیلئے بھیج دیتی ہے اور وفاقی کابینہ کی جانب سے حتمی منظوری کے فوری بعد مطلوبہ نام کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں درج یا خارج کردیا جاتاہے۔