کامن ویلتھ ججز کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ آیا۔ بہ حیثیت چیف جسٹس آف پاکستان میں کامن ویلتھ ججز کا پیٹرن بھی تھا۔ اس کے لئے صدر کو ریفرنس بھیجا گیا۔ غالباً صدر ایسے کسی معاملے کی اجازت دینے سے پہلے اپنے مصاحبین سے مشورہ کرتے ہوں گے۔ ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس ہوئی جس میں شریف الدین پیرزادہ بھی شامل تھے جو جنرل مشرف کے سینئر مشیر تھے۔ عزیز اے منشی بھی تھے۔ اس کانفرنس میں میرا ریفرنس پیش کیا گیا کہ یہ کامن ویلتھ ججز کانفرنس میں شرکت کے لئے کیمبرج جانا چاہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے سب کو بریف کیا کہ اس چیف جسٹس کو ہم باہر نہیں بھیج سکتے کیونکہ اس کے عزائم خطرناک ہیں۔ یہ آپ کی جگہ خود صدرِ پاکستان بننا چاہتا ہے۔معاون سے چیف جسٹس بننے تک کی داستان زیرِ اشاعت سوانح عمری ’’ ارشادنامہ‘‘ میں درج ہے ۔وہ صدر کے سامنے فائل پیش کرنے لگے تو شریف الدین پیرزادہ نے پہلے ہی وہ فائل پکڑ لی اور کہا: کوئی ضرورت نہیں اس فائل کو پیش کرنے کی! آپ ہوش سے بات کریں۔ کون ہے ارشاد حسن خان اور فوج، حکومت یا سیاسی اداروں میں اس کی کیا حیثیت ہے؟ کوئی حیثیت نہیں۔ نہ ان کا سیاست سے تعلق ہے، نہ ان کو فوج کی سپورٹ ہے، نہ حکومت کی سپورٹ حاصل ہے، نہ کسی اور ادارے کی سپورٹ حاصل ہے۔ وہ اکیلا آدمی آپ کو ہٹا کر صدرِ پاکستان کیسے بن جائے گا؟وہاں بیٹھے ہوئے کسی فرد نے کہا: حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کو کامن ویلتھ نے اپنا رکن نہیں بنایا، مگر ارشاد حسن خان کو کامن ویلتھ ججز کا پیٹرن بنا دیا ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے۔شریف الدین پیرزادہ نے کہا: ارشاد حسن خان کا پیٹرن ہونا ملک کے لئے عزت کی بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ اکیلے پیٹرن نہیں ہیں یہ تو ان کے منصب کی وجہ سے ہے۔ جتنے بھی ممالک کے چیف جسٹس صاحبان جب اس کانفرنس میں جاتے ہیں تو وہ اپنے اپنے ملک کے پیٹرن ہوتے ہیں۔اس طرح یہ معاملہ طے ہوا۔ اس کے بعد برٹش کونسل نے کسی سلسلے میں ہمیں لندن مدعو کیا۔ اس زمانے میں محمد جعفر صاحب برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنراور جنرل مشرف کے دوستوں میں سے تھے۔ وہاں میں لارڈ چانسلر سے بھی ملا، چیف جسٹس سے بھی ملا۔ جسٹس ریاض بھی میرے ہمراہ تھے۔ چیف جسٹس کے ساتھ ہم کورٹ کے ایک سیشن میں شریک ہوئے۔ دارالعوام اور دارلامراء میں بھی گئے۔ مختلف عدالتوں کا معائنہ کیا اور وہاں کے ججوں کے ساتھ خیالات کا تبادلہ کیا۔ ہائی کمشنر صاحب ہمارے ساتھ ساتھ تھے۔ انہوں نے جب وہاں میری سرگرمیاں دیکھیں کہ میںکیسے ملتا ہوں، اور لوگوں سے گفت و شنید کیسے ہوتی ہے تو مجھ سے کہا: ارشاد صاحب، مجھے آپ سے درخواست کرنا ہے۔ میری دانست میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے آپ سے زیادہ موزوں کوئی نہیں ہے۔ میں آپ کی اجازت سے جنرل مشرف سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو صدرِ پاکستان بنایا جائے۔میں نے کہا: مجھے یہ منظور نہیں ہے۔ مجھے جس عہدے پر مامور کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ اسی پر مجھے کامیابی عطا فرمائے۔ اور میری دانست میں اس سے بڑا عہدہ اور کوئی نہیں ہے۔ میں سیاستدان نہیں ہوں کہ ایسے معاملات میں پڑوں۔
وہ خاموش ہو گئے۔ بعد میں جسٹس ریاض کو ایک طرف لے جا کر کہا کہ خدا کے لئے انہیں سمجھایئے۔ ملک کا معاملہ ہے۔ ہمیں اچھے لوگ چاہئیں۔ ان سے بہتر آدمی تو میں نے نہیں دیکھا۔ اللہ نے انہیں جرأت بھی دی ہے اور قابلیت بھی۔ یہاں کئی وفود آئے لیکن جس غیرروایتی طریقے سے انہوں نے کانفرنس کے دوران بات کی ہے، اور جیسے باتوں کا جواب دیا ہے، یہ ملک کی نمائندگی کے لئے بہت موزوں ہیں۔
انہوں نے انہیں بتایا کہ ان کے خلاف پہلے ہی باتیں چل رہی ہیں۔ اگر ایسی کوئی بات ہوئی تو جنرل مشرف کو یقین ہو جائے گا کہ یہ بندہ میری جگہ لینا چاہتا ہے، اور اب جعفر صاحب سے سفارش کرا رہا ہے۔ یہ سن کر وہ خاموش ہو گئے۔ذرا دیکھئے کہ ہمارے ملک میں کیسی کیسی سازشیں چلتی ہیں، اور جھوٹ کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے ہیں۔عزیز اے منشی کا ذکر ایک بار پھر آرہا ہے میری ان سے ذاتی طور پر کوئی رنجش نہیں ہے۔ بڑے بااخلاق انسان تھے۔ جب بھی کبھی ملاقات ہوتی تو بڑے اچھے طریقے سے ملتے تھے۔ میں کراچی گیا تو انہوں نے میری دعوت کی اور بڑی عزت سے پیش آئے۔ لیکن انتظامی معاملات میں میری ان سے جو کھٹ پٹ ہوتی رہی، وہ اپنی جگہ، کام کے معاملے میں، میں دوستی کو آڑے نہیں آنے دیتا تھا۔