• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے عالم میں، کہ ایک طرف ہمسایہ ملک کی طرف سے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیانات، مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی قوانین کی پامالی سمیت نت نئے اقدامات، لائن آف کنٹرول کو گرم کرنے کی کوششوں کا سلسلہ پوری شدت سے جاری ہے اور دوسری جانب پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وار کے مختلف حربے ہر گزرتے دن کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں جبکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پیدا کئے گئے اور مختلف سمتوں سے آئے دیگر چیلنج اس بات کے متقاضی ہیں کہ خطرات سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت چوکنا رہا جائے۔ منگل کے روز پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے سکردو اور گلگت کے دورے میں افسروں اور جوانوں سے خطاب میں جہاں ابھرتے ہوئے خطرات کا موثر طور جواب دینے کی ضرورت اجاگر کی وہاں سوفٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک کا بھی افتتاح کیا۔ اُنہوں نے جس انداز سے موسمی حالات سمیت ہر قسم کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے تیاری و مستعدی کا جائزہ لیا، اسی طرح میدانِ سیاست کے ذمہ داروں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی پارٹیوں کے معاملات اور دیگر سیاسی پارٹیوں سے تعلقات میں یہ بات ملحوظ رکھیں کہ ہر سطح پر قومی یکجہتی و مستعدی کا مظاہرہ ہو اور جمہوری رویوں کو زیادہ موثر انداز میں بروئے کار لایا جائے۔ بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے جس بصیرت اور معیار قیادت کا مظاہرہ کرتے ہوئے برٹش انڈیا کے دور میں ایک بکھری منتشر اور خوابیدہ قوم کو متحد، منظم اور بیدار و مستحکم کر کے دنیا کے نقشے پر ایک اہم ملک پاکستان کا نام نمایاں کیا، اس بصیرت اور معیار قیادت کے حامل افراد کم پیدا ہوتے ہیں۔ مگر ہم اپنے تمام سیاسی، سماجی اور دیگر اداروں میں قائداعظم کے بنائے ہوئے اصولوں کا چلن یقینی بنا کر کامیابیوں کی راہ پر تیزی سے گامزن ہو سکتے ہیں۔ بانی پاکستان جمہوری اصولوں کو جو غیرمعمولی اہمیت دیتے تھے اس کا ذکر کرنے کی ضرورت اس بنا پر پیش آئی کہ جمہوری روایات میں جہاں عام آدمی کی رائے کو اہمیت حاصل ہے وہاں شائستگی کے تقاضوں کی بھی خاص اہمیت ہے۔ آمرانہ نظام، تشدد، جبر اور دوسروں کی تضحیک کے منفی رجحانات کی طرف جھکائو رکھتا ہے جبکہ جمہوریت دوسروں کی بات پر سنجیدہ توجہ دینے کا تقاضا کرتی ہے، اس پس منظر میں منگل کے روز کا یہ واقعہ خاصا حوصلہ افزا ہے کہ وفاقی حکومت نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خلاف درج کرائے گئے غداری کیس سے نہ صرف لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ وزیر اعظم سمیت متعدد حکومتی ارکان نے اس پرردِعمل بھی ظاہر کیا۔ ماضی کی کئی غلطیوں کی طرح اب نہ صرف ہمارے سیاست دانوں کو ایک دوسرے کو غدار اور باغی قرار دینے کی روش ترک کر دینی چاہئے بلکہ بلا ثبوت چور، ڈاکو یا نااہل سمیت ایسے القابات دینے سے بھی گریز کیا جانا چاہئے جو اعلیٰ معاشرتی روایات کے حوالے سے ناپسندیدہ باتوں میں آتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں حکومت اور اپوزیشن کے مطمح نظر کا فرق ملکی مفاد کے لئے زیادہ غورو فکر کا متقاضی ہوتا ہے۔ اس لئے مخالف نقطہ نظر پر طعن آمیز رویہ اختیار کرنے کی بجائے گہرائی میں جا کر تجزیہ کی راہ اختیار کرنا بہتر ہوتی ہے۔ اس نوع کے غوروفکر کے بسا اوقات دور رس نتائج ہوتے ہیں۔ جہاں تک احتساب کا تعلق ہے اس میں چیک اینڈ بیلنس کے طریق کار سے ہر ایک کو گزرنا ہوتا ہے اور اس باب میں فیصلہ دینا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں جمہوری روایات کو فروغ دینا ہے تو ایک دوسرے کی بات سننے کی روایت اپنانے اور اسے ملک دشمن قرار دینے کی روایت ترک کرنا ہوگی، پاکستان کا ہر فرد اپنے ملک کا خیر خواہ ہے اس کے زاویہ نظر کو سہل پسندی کی نذر نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ اس پر پوری توجہ اور سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہئے۔

تازہ ترین