پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی کال پر پیپلزپارٹی نے پنجاب میں احتجاجی جلسے، جلوسوں، ریلیوں کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور پارٹی قیادت کارکنوں سے رابطوں کے لئے فعال اور متحرک ہو گئی ہےاور پنجاب میں پارٹی صدر قمر زمان کائرہ نے پوری ٹیم کے ساتھ اپنی تمام توجہ اس جانب مرکو ز کردی ہے۔ پیپلزپارٹی لاہور میں گزشتہ ایک ماہ سے چیئرمین بلاول بھٹو کی عوامی سالگرہ تقریبات میں مصروف ہے جس کا سہر ا سنیئر صوبائی نائب صدر اسلم گل کے سر جاتا ہے جنھوں نے گزشتہ ماہ بلاول بھٹو کی عوامی سالگرہ کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد لاہور کے صدر حاجی عزیز الرحمان چن نے شہر بھر میں 30روزہ سالگرہ تقریبات کا شیڈول جاری کر دیا ، اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی پارٹی نے ان تقریبات کو ــ’’گو عمران گو تحریک ‘‘ میں تبدیل کر دیا اور احتجاجی جلسے ، جلوسوں میں تبدیل کر دیا گیا۔
شہر بھر میں روزانہ مختلف مقامات پر دو تین جلسے کر کے پارٹی کارکنوں سے رابطے اور انھیں فعال کیا جارہا ہے، بلاول بھٹو کی سالگرہ ہر سال مناتی جاتی ہے لیکن یہ تقریبات دفاتر یا ڈرائنگ رومز میں ہوتی تھیں لیکن پیپلزپارٹی کے زیر اہتمام پہلی بار بلاول بھٹو کی سالگرہ عوامی جلسوں میں منائی گئی اور سب سے بڑی تقریب فیروز پور روڈ پر بے نظیر بھٹو پارک میں چودھری اسلم گل کے زیر اہتمام منائی گئی ،اسی پارک میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری بھی پارٹی کنونشن سے خطاب کر چکے ہیں، عوامی جلسے نے برسوں بعد شہر میں پیپلزپارٹی کا رنگ جما دیا۔
جیالے ڈھول کی تھاپ پر ناچتے بھنگڑے ڈالتے جلسہ گاہ میں ہزاروں کی تعداد میں پہنچے،جلسہ سے پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے انتہائی پر اثر جوش خطاب کیا جبکہ گھوڑوں کا رقص اور آتش بازی بھی کی گئی۔ ماضی میں اس قسم کی تقریبات پیپلزپارٹی کا خاصا تھیں لیکن عمران خان حکومت کے خلاف پی ڈی ایم تحریک نے کارکنوں کو دوبارہ سرگرم کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم کی تحریک کے لئے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو متحرک کرنے کے لئے ’’گو نیازی گو‘‘ تحریک سے حکومت بھی پولیس کی مدد سے متحرک ہو گئی ، اعوان ٹائون پارک میں جلسے کو روکنے کے لئے پولیس نے پارک پر قبضہ کر لیا اور مقدمہ درج کر لیا گیا، بعد ازاں پیپلز پارٹی نے اعوان ٹاؤن میں ایک ہال میں تقریب کا اہتمام کیا۔ حاجی عزیز الرحمن چن نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت لاہور میں پیپلز پارٹی کے زیراہتمام ’’گو نیازی گو‘‘ تحریک سے بوکھلا گئی ہے اور پیپلز پارٹی کے جلسے روکنے پر اتر آئی ہے۔
پیپلز پارٹی عمران خان نیازی کی سیاست کو لاہور میں ہی دفن کرے گی اور اس آمر سے جلد نجات حاصل کرنے کے لئے پی ڈی ایم کی تحریک کو کامیاب بنائے گی۔ لاہور کے صدر عزیز الرحمان چن کا کہنا ہے کہ گوعمران گو تحریک کے بعد قیادت کا جو حکم ہو گا تیار اور متحرک ہیں، پنجاب میں کسی جگہ حکومت کے خلاف اتنی سرگرمیاں نہیں جتنے زور شور سے لاہور میں کام ہو رہا ہے،پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک چلانے کے لئے گزشتہ ہفتے پنجاب کے دفتر ماڈل ٹائون لاہور میں ڈویژنل اور ضلعی صدور کے اجلاس میں لائحہ عمل طے کیا گیا جس کے مطابق صوبائی صدر قمر زمان کائرہ کی سربراہی میں قیادت تمام ڈویژنوں اور اضلاع کےدورے کرے گی اور کارکنوں سے رابطہ مہم شروع ہو گی، پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کے سلسلہ میں پارٹی جلسوں کے لئے چیئرمین بلاول بھٹو سے وزیر آباد، فیصل آباد، ساہیوال میں جلسوں کے لئے خطاب کی دعوت بھی دی گئی ہے جس کی حتمی تاریخیں بلاول بھٹو دیں گے، پنجاب میں پی ڈی ایم کے احتجاجی جلسوں سے قبل پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو متحرک کیا جائے گا۔
پیپلزپارٹی نے تمام اضلاع کو ہدایا ت کر دی ہیں کہ قیادت کے اگلے فیصلہ کے لئے مکمل تیار رہیں اور جو کال دیں تمام جماعتوں سے آگے کھڑے ہو ، پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ پارٹی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ حکومت کو چلتا کریں،عمران خان کے چل چلائو کا وقت شروع ہو گیا، وزیر اعظم اداروں کے پیچھے نہ چھپیں، ریاستی اداروں کو چاہئے کہ ماضی کی غلطیاں چھوڑ کر آئندہ احتیاط کریں، پی ڈی ایم تحریک میں کارکن پر امن جدو جہد کریں گے اور کسی تشدد کا حصہ نہیں بنیں گے، اسمبلیوں کے اندر اور باہر احتجاج استعفوں تک جائے گا، پی ڈی ایم کی تحریک کے لئے فی الحال پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن الگ الگ جلسے ، جلوس اور ریلیاں کر رہی ہیں، پیپلزپارٹی کے بعد مسلم لیگ ن بھی شہباز شریف کی گرفتاری کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور مال روڈ لاہور میں پارٹی طاقت کا مظاہرہ کر چکی ہے جہاں رانا ثناء اللہ، خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق سمیت دیگر رہنمائوں نے دھواں دھار تقاریر کیں۔
نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز آئندہ ہفتے 16اکتوبر کو گوجرانوالہ میں جلسے سے خطاب کریں گی جن کے قافلے کا لاہور سے گوجرانوالہ تک جگہ جگہ استقبال ہو گا ، مسلم لیگ ن نے کارکنوں سے رابطہ مہم کے لئے ڈویژنل ورکر کنونشن بھی کرے گی تاہم ان جلسوں میں اپوزیشن اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے رہنمائوں کو خطاب کی شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی صف بندی کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی روایتی ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں ، مسلم لیگ ن کے منحرف ارکان پنجاب اسمبلی سے رابطے استوار کئے جارہے ہیں جس کے جواب میں مسلم لیگ ن نے بھی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات کرنے والے مسلم لیگ ن کے 5 ارکان کو پارٹی سے نکال دیا ہے پارٹی سے نکالے جانے والے اراکین پنجاب اسمبلی میں اشرف انصاری، جلیل شرقپوری، فیصل نیازی، نشاط ڈاہا اور مولوی غیاث الدین شامل ہیں ان اسمبلی کے ارکان کے خلاف کارروائی مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثناءاللہ کے دستخطوں سے عمل میں آئی۔
پنجاب میں پولیس اور نیب کے ذریعے مخالف کارکنوں کو مقدمات میں الجھایا اور پھنسایا جا رہا ہے ،لیگی کارکنوں اور ارکان کی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے لالچ اور دبائو کا ہر حربہ استعمال ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی جنھیں عرصہ سے نظر انداز کیا ہوا تھا ان سے ایوان وزیر اعلیٰ میں ملاقاتوں کا سلسلہ اور ترقیاتی فنڈز دئیے جا رہے ہیں، پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے سڑکوں پر لگے احتجاجی بینر اتارنے کیلئے کارپوریشن ملازمین استعمال ہو رہے ہیں۔