مفتی خالد محمود
۲۳ شعبان ۱۴۲۵ھ بمطابق ۹؍ اکتوبر ۲۰۰۴ء بروز ہفتہ شام کے وقت جب دنیا کا سورج دُور،سرخ اُفق میں غروب ہونے کی تیاری کر رہا تھا ،اس وقت شہر کراچی میں ایک ایسے عظیم شخص کو خاک و خون میں نہلادیا گیا جو علم و عمل کا تاج دار تھا ، فہم و فراست کا دُرشہوار تھا، نجابت و شرافت ، سیادت و قیادت اور امانت و دیانت کا ابرگوہر بار تھا۔ اسلاف و اکابر کی روایات کا پاس دار تھا، جسے دنیا مفتی محمد جمیل خان کے نام سے جانتی پہچانتی تھی۔
مفتی محمد جمیل خان شہید رحمۃ اللہ اقرأ روضۃ الاطفال کے بانی، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی مرکزی شوریٰ کے رکن اور نائب امیر کے معاون، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مایہ ناز سپوت، روزنامہ جنگ کے اسلامی صفحے ’’اقرأ‘‘کے انچارج، علماء و مشائخ کے خادم اور ان کے معتمد، ہر دینی تحریک کے روحِ رواں، حضرت مولانا فقیر محمد ، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہما اللہ کے خلیفہ مجاز، علمائے حق کے ترجمان، بلند پایہ صحافی اور اس جیسی بے شمار صفات کے حامل انسان تھے۔
مفتی صاحبؒ لوگوں کے لیے مینارۂ نور تھے، جس کی روشنی میں لوگوں کے لیے راہِ ہدایت پر گامزن ہونا آسان ہوجاتا تھا، آپ کاوجود مدارس اور اہل مدارس کے لیے وقار کا باعث تھا، ان کے دم قدم سے ارشاد و تلقین کی شمعیں روشن تھیں اور اصلاح وتربیت کی محفلیں آباد تھیں ، زندگی ان کے نقشِ پا سے راستہ تلاش کرتی، مجروح اور شکستہ دل ان کے انفاس سے مرہم پاتے اور بے کس و در ماندہ افراد ان کے سایۂ عاطفت میں پناہ لیتے، وہ شمع کی مانند خود پگھلتے رہے، مگر دوسروں کو روشنی بخشتے رہے، خود جلتے رہے ،مگر دوسروں کو جلا بخشتے رہے، خود بے چین و بے قرار رہ کر دوسروں کو سکون بخشتے رہے، وہ تواضع و انکساری کاپیکر تھے، اگر احباب ان کی نرم خوئی اور ان کے حسنِ سلوک کے معترف تھے تو حکام اور سرکاری افسران ان کی حمیت و غیرت، ان کی جرأت و استقامت اور ان کی حق گوئی و بے باکی سے خائف رہتے ، کیوں کہ انہوں نے بغیرخوف لومۃ لائم کے ہمیشہ حق کہا اور حق پر ثابت قدم رہے، انہیں حق گوئی سے کوئی لالچ، کوئی خوف نہ روک سکا، باطل فتنوں اور اہل زیغ کے سامنے وہ ہمیشہ سد سکندری ثابت ہوئے، انہوں نے ہمیشہ ملاحدہ و زنادقہ کے فتنوں کے سیلاب کے سامنے بند باندھا، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی سرپرستی کی اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے رات دن ایک کیے رکھا، اقرأ روضۃ الاطفال کے ذریعے قرآن کریم کی روشنی کو گھر گھر پہنچانے کے لیے رات دن کوشاں رہے،اس طرح ان کی پوری زندگی جہاد فی سبیل اللہ، اعلائے کلمۃ اللہ، اسلام کی دعوت و تبلیغ ، قرآن کریم کی اشاعت اور ختم نبوت کی پاسبانی میں گزری۔
مفتی صاحب زندگی کی اتنی بلندی پر تھے کہ ان کے مقام و مرتبے تک پہنچنا تو درکنار، اسے دیکھنا بھی مشکل تھا اور جب اس زندگی کو خیر باد کہہ کر عالم آخرت کی طرف روانہ ہوئے تو وہ بھی اتنے باعزت طریقے سے کہ ہمارے جیسا تو اس کی صرف تمنا ہی کرسکتا ہے۔
مفتی صاحبؒ نہ صرف یہ کہ خود عزت و شرافت کا پیکر تھے، بلکہ دوسروں کو بھی عزت و شرافت کا راستہ دکھایا کرتے،بلکہ عزت و شرافت اور سیادت و قیادت کے سارے راستے انہی کے گھر کی طرف جاتے تھے۔ بڑے بڑے لوگ ان کی اقتداء کیا کرتے۔آپ نے ہر ایک کی خدمت کر کے، ہر ایک کے کام آکر ، ہر ایک کی رہنمائی کر کے، ہر ایک کی مشکل حل کر کے، ہر تحریک کا روحِ رواں بن کر، ہر ضرورت مند کا درماں بن کر اپنے آپ کو اس طرح منوالیا تھا کہ وہ ہر ایک کی ضرورت بن گئے، جس کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا، کوئی پریشانی لاحق ہوتی، کسی کا کام نہ ہو رہا ہوتا تو وہ مفتی صاحب ہی کی طرف رجوع کیا کرتا اور آپ بغیر کسی تفریق کے ہر ایک کے کام آتے۔مفتی محمد جمیل خان ؒسخی تھے، بہادر تھے، اپنے نام کی طرح جمیل و خوبصورت بھی تھے، وہ دراز قد بھی تھے اور سردار بھی ، خوبصورت بھی تھے اور جوانِ رعنا بھی ، ہمارے مفتی صاحب تو بلا مبالغہ جوانی ہی میں اپنے حلقہ اور اپنے خاندان میں سرداری کے منصب پر فائز ہوچکے تھے، لیکن اس سرداری کے باوجود تواضع کا پیکر تھے، انہوں نے سرداری کے بجائے وصف خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر ہمیشہ خادم بننا ہی پسند کیا۔
مفتی محمد جمیل خان شہید ؒ کیا تھے؟ شہادت کے طور پر سلسلۂ رائے پوری کے امین شیخِ طریقت حضرت سید نفیس شاہ الحسینیؒ کے الفاظ نقل کرتا ہوں:’’مولانا مفتی محمد جمیل خان رحمہ اللہ کے بارے میں کچھ لکھنا میری قلمرو سے باہر ہے ۔ وہ مجموعۂ محاسن تھے، جن کا احاطہ کرنا میرے بس میں نہیں۔ دورِ حاضر میں جن، جن خصوصیات سے اللہ تعالیٰ نے انہیں نوازا تھا، بلا شبہ ان کا وجود اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت تھی۔ انہوں نے اپنے علم و عمل سے بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے۔تقریر و تحریر دونوں سے انہوں نے ملک کے گوشے گوشے کو سیراب و فیض یاب کیا، بیرون ملک بھی ان کے آوازۂ سخن نے غلغلہ برپا کیے رکھا، دینی تحریکوں میں انہوں نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے وہ روحِ رواں تھے۔آپ کی طبیعت میں جذبۂ خدمت ، دین و ملت کا ایک مثالی جوہر تھا جس کی جولانیوں سے ان کی زندگی کا ہر ہر لمحہ مشغول و مصروف رہا۔ ’’اقرأ روضۃ الاطفال‘‘ کی ملک گیر تحریک ان کی زندگی کا شاہ کار اور عدیم المثال کارنامہ ہے ۔ ان کے حسن اخلاق نے انہیں مقبولیت عامہ سے نوازا، ملک کے مقبولانِ بارگاہِ خداوندی سے ان کے نیاز مندانہ رابطے تادمِ زیست رہے۔ عجز و انکسار ان کے محاسن کا طرۂ امتیاز تھا۔ جذبۂ جہاد و سعی و عمل سے ان کی زندگی تابندہ و درخشندہ تھی ، مرکز علوم دینیہ دار العلوم دیوبند سے والہانہ محبت اور اس کے لیے سربلندی و سرفرازی کے راستے تلاش کرنا ان کی طبیعت ثانیہ بن گئی تھی۔ ان کی زندگی میں مجاہدانہ اور حکیمانہ سرگرمیوں کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا ‘‘۔(بینات شہید ختم نبوت نمبر ص:۲۰)
مفتی محمد جمیل خان ؒایک معروف ، اونچے اور دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے، گھر میں دینی ماحول اور ابتداء ہی سے بزرگوں کی صحبت میسر آئی ، جس نے ان کی تعلیم و تربیت پر اچھا اثر ڈالا اور ان کی زندگی ایک خاص دینی مزاج میں ڈھلتی چلی گئی۔آپ جامعہ علوم اسلامیہ کے فاضل تھے، آپ نے جامعہ علوم اسلامیہ میں اور بعد ازاں کچھ عرصہ جامعہ بنوریہ میں تدریس کے فرائض انجام دیئے۔
روزنامہ جنگ نے جب اسلامی صفحہ ’’اقرأ ‘‘کا آغاز کیا تو مفتی جمیل خان کو اس کا نگران بنایا گیا ۔ آپ کی محنت و کوشش سے روزنامہ جنگ میں اسلامی صحافت نے ترقی کی۔ اقرأ اسلامی صفحہ کے علاوہ آپ نے کئی اسلامی ایڈیشن کا نہ صرف یہ کہ اجراء کیا، بلکہ اسے بلندی تک پہنچایا، روزنامہ جنگ کی اسلامی صحافت کے اس رنگ کو دیگر اخبارات بھی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک خوب صورت دینی رسالہ اقرأ ڈائجسٹ کے نام سے نکالا جو مقبول عام و خاص ہوا۔اس کے علاوہ کئی دینی رسالوں کے سرپرست اور ان کی مجلس ادارت و مشاورت میں شامل رہے۔ہر دینی تحریک کے روحِ رواں رہے، مگر ان تمام تر بلند اوصاف کے باوجود آپ میں حد درجہ تواضع بھی۔ کبھی اپنی ذات کو نمایاں نہیں کیا، بلکہ ہر موقع پر اپنی نفی کی۔
مفتی محمد جمیل خان شہید ؒ کے کارہائے نمایاں بھی بہت زیادہ ہیں اور آپ کے محاسن و محامد بھی کثیر ہیں ۔ ان سب کا احاطہ کرنا بلکہ سرسری بیان کرنا بھی مشکل ہے ، لیکن یہاں دوباتوں کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں : ایک ان کا بزرگوں کی خدمت کرنا اور دوسرا ان کا اقرأ روضۃ الاطفال کا عظیم علمی اور دینی کارنامہ۔جہاں تک خدمتِ خلق کا تعلق ہے تو مولانا رومی نے ایک شعر میں فرمایا ہے جس کا ترجمہ ہے:’’ہاتھ میں تسبیح ہو، مصلیٰ اور سجادہ بچھا ہوا ہو، گدڑی پہنی ہوئی ہو، تصوف اس کا نام نہیں ہے، بلکہ تصوف و طریقت اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ مخلوق خدا کی خدمت کرو۔ مولانا رومیؒ کی اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مفتی صاحب نے اپنے اساتذہ اور مشائخ کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا، صرف بزرگوں ہی کی خدمت نہیں کی، بلکہ مفتی صاحبؒ نے ہر بڑے چھوٹے کی خدمت کی، یہی وجہ ہے کہ مفتی صاحب کی زندگی میں خدمت کا وصف سب سے نمایاں تھا اور مفتی صاحب کے اس وصف سے اپنوںہی نے نہیں،بلکہ غیروں نے بھی فائدہ اٹھایا، مفتی صاحب خدمت کرنے میں اتنے ممتاز تھے کہ آشنا، نا آشنا، واقف، ناواقف کی کوئی قید نہیں تھی، جسے ضرورت پڑی، مفتی صاحب اس کی خدمت کے لیے ہمہ وقت حاضر اور اس خدمت کے صلے میں نہ کوئی لالچ، نہ کسی صلے کی تمنا، نہ ستائش و تعریف کی خواہش، یقیناً مفتی صاحب کی خدمت بے لوث اور بلاغرض تھی اور یہ وصف آج کل عنقا ہے‘‘۔(عکس جمیل، بینات شہید ختم نبوت نمبر، ص:۱۰۵۶)
مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’میں ان کے کس کس کمال، خدمت و محبت اور عقیدت و تعلق کا تذکرہ کروں؟ بلا مبالغہ بعض اوقات میری راحت و آرام کے لیے وہ رات، رات بھر جاگتے رہتے اور میں ان کی اس خدمت کے جذبے کو دیکھ کر منفعل ہوجاتا۔ صرف یہی نہیں بلکہ صبح، شام مجھ سے ملنے کے لیے آنے جانے والے سو پچاس جتنے بھی حضرات ہوتے، ان کی تواضع کرنا، انہیں کھانا کھلانا، ان کے ناشتے کا خیال رکھنا اور اگر کہیں ضرورت ہوتی تو مجھے وہاں لے جانا وغیرہ یہ سب امور ان کے معمولات ہوگئے۔ وہ شخص جو گھر میں ایک دن بھی ٹک کر نہ بیٹھتا ہو، اس کا میرے لیے مستقل جم کر بیٹھ جانا کسی مجاہدے سے کم نہیں تھا۔صرف یہی نہیں، بلکہ ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح میں پھر سے بولنا اور بیان کرنا بلکہ درس بخاری کا موقوف سلسلہ شروع کردوں ، اس کے لیے انہوں نے یہ حیلہ اختیار کیا کہ گھر کے صحن میں شامیانہ لگوا کر اسپیکر کا انتظام کیا اور مجھ سے درخواست کی کہ میں روزانہ شام کو بیان کیا کروں۔ چنانچہ ان کی برکت سے روزانہ مختلف مدارس کے علماء ، طلبہ اور عوام کی اچھی خاصی تعداد ان کے گھرپر جمع ہوجاتی، ان کی برکت سے میں نے درسِ قرآن شروع کردیا اور غالباً سورۂ فاتحہ کے کچھ حصے کا درس بھی دیا۔ان کی محبت و خدمت کا کرشمہ تھا کہ مجھ جیسا آدمی جو اپنی وجہ سے کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا، انہیں اپنا بیٹا اور ان کے گھر کو اپنا گھر سمجھنے لگا، ان کے بچے، ملیحہ، ریان اور دوسرے بیٹے محمد اور ثانی مجھے حقیقی دادا سمجھتے اور کہتے کہ وہ مجھ سے بے حد مانوس ہوگئے ہیں۔اس کے بعد تو ان سے ایسی قربت بڑھی کہ وہ نہ آتے تو مجھے قلق ہوتا، میں ان کی کون ، کون سی باتوں کو یاد کروں؟ انہوں نے مجھے اس معذوری میں حج کروائے، عمرے کرائے، حتیٰ کہ ستائیسویں رمضان کو زائرین کے بے پناہ رش کے باوجود مجھے بڑی مشکل سے عمرہ کرایا۔
علامہ زاہد الراشدی لکھتے ہیں:’’ حضرت والد صاحب سے ان کی خادمانہ سرگرمیوں کا عینی شاہد ہوں، اس لیے مجھے یہ بات کہنے میں کوئی حجاب نہیں ہے کہ حقیقی اولاد بھی اپنے باپ کی اتنی خدمت نہیں کرسکتی جو مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ اور ان کے چند قریبی رفقاء نے حضرت والد صاحب کی خدمت کی ہے۔ اقرأ روضۃ الاطفال کے قیام کو بہت سے اکابر نے ان کا تجدیدی کارنامہ قرار دیا۔عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سابق امیر ممتاز عالم دین، مولانا عبدالمجید لدھیانویؒ تحریر فرماتے ہیں:’’اقرأ نظام تعلیم کے وہ موجد بلکہ مجدد تھے۔ یہ نظام بہت مقبول ہوا، اونچی سوسائٹی کے لوگ جو مدارس عربیہ کے نام سے بدکتے تھے، اس نظام سے بہت متاثر ہوئے، اس نظام کے ذریعے گھر گھر قرآن کریم اور دینی تعلیم کے اثرات پہنچ گئے۔ اس نام سے پورے ملک میں مدارس کا جال پھیل گیا، جس کے معاشرے پر خوش گوار اثرات مرتب ہو ئے، یہ سب ان کا صدقۂ جاریہ ہے‘‘۔( بینات، شہید ختم نبوت نمبر،ص:۵۰)
شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں:’’ ان کا ایک عظیم کارنامہ ، جو ان شاء اللہ ان کا بہترین صدقہ جاریہ ہے… ’’اقرأ روضۃ الاطفال‘‘ بلکہ ’’اقرأ ایجوکیشن سسٹم‘‘ کا قیام ہے ۔ انہوں نے پاکستان میں غالباً پہلی بار ایک ایسے نظام تعلیم کی بنیاد ڈالی جس میں طلبہ مروجہ عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ حفظ قرآن کریم اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہوں۔انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر اپنے استاذ حضرت مولانا مفتی ولی حسن کی سرپرستی میں اس کام کا آغاز بے سرو سامانی کے عالم میں کیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اس کام کو ایسی مقبولیت عطا فرمائی کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ادارہ ایک بڑے تعلیمی نظام میں تبدیل ہوگیا۔ پہلے کراچی شہر میں محلے محلے اس کی شاخیں قائم ہوئیں، پھر کراچی سے نکل کر ملک کے دوسرے شہروں میں یہاں تک کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں ایسے اداروں کا ایک جال قائم ہوگیا جس میں اس وقت ہزار ہا طلباء و طالبات دینی اور عصری علوم کی دولت سے بیک وقت بہرہ اندوز ہورہے ہیں۔ ان اداروں کے قیام میں انہوں نے اور ان کے رفقاء میں سے عزیزان گرامی مولانا مزمل حسین کپاڈیا اور مفتی خالد محمود صاحب نے جو انتھک محنت کی اور جو ناقابل فراموش قربانیاں دیں،وہ ہم سب کے لیے سرمایہ افتخار ہیں۔ ان کا یہ صدقۂ جاریہ ان شاء اللہ عرصۂ دراز تک ان کے نامۂ اعمال میں حسنات کا ذخیرہ جمع کرتا رہے گا‘‘۔ ( بینات، شہید ختم نبوت نمبر،ص:۳۷)
اللہ تعالیٰ مفتی محمد جمیل خان شہید کی مساعیٔ جمیلہ کو قبول فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے، جو مشن وہ چھوڑ گئے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں جاری و ساری رکھتے ہوئے ان کی حفاظت و مدد فرمائے۔( آمین)