فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف) کا ورچوئل اجلاس ماہ رواں کی 21 تا 23 تاریخ کو منعقد ہونے جا رہا ہے۔اس اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے بارے میں فیصلہ متوقع ہے۔ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کو 27نکات پر مشتمل ایک فہرست فراہم کی گئی تھی۔فروری2020ء تک پاکستان ان میں سے 14 نکات پر پورا اترا۔لیکن اس کے باوجود ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل رکھا ۔واضح رہے کہ پاکستان کو جون 2018ء سے گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے۔ حکومت نے 28جولائی کو پارلیمنٹ کو 27میں سے 14نکات اور ایف اے ٹی ایف کی 40سفارشات میں سے 10کی تکمیل اور صورت حال سے آگاہ کیا۔ ستمبر میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں پر غور کیا گیا۔اور اپنے قانونی نظام کو بین الاقوامی معیار اور ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کے مطابق اپ گریڈ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔جس کے لئے تقریباً15 قوانین میں ترمیم کی منظوری دی گئی۔
پاکستان ایف اے ٹی ایف اور وابستہ جائزہ گروپوں کو پہلے ہی اپنی رپورٹ پیش کر چکا ہے۔جن قوانین کو اپ گریڈ کرنے کی منظوری دی گئی ہے ان کی بنیاد پر توقع کی جاتی ہے کہ آئندہ ورچوئل اجلاس میں کم از کم 10نکات پر بڑے پیمانے پر تعمیل کو ضرور مد نظر رکھا جائے گا۔ایف اے ٹی ایف کے آئندہ اجلاس میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی اعانت اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں۔علاوہ ازیں ایف اے ٹی ایف کی طرف سے نامزد افراد اور اداروں کے خلاف پاکستان کی طرف سے موثر اقدامات کو بھی پیش نظر رکھا جائے گا۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ بھارت کی بھر پور کوشش ہے کہ کسی بھی طرح پاکستان کو بلیک لسٹ کرایا جائے۔ اس مقصد کے لئے بھارت نے بعض یورپی ممالک کو بھی ساتھ ملایا ہے۔ حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا جائے۔حکومت نے منی لانڈرنگ اور دہشت گرد تنظیموں اور افراد کے خلاف سخت کارروائی شروع کر رکھی ہے۔
پاکستان نے کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمد کر دیئے ہیں اور ان تنظیموں سے وابستہ کئی سرکردہ افراد کے خلاف بھی سخت کارروائیاں کی گئی ہیں۔پاکستان نے ان تنظیموں کے خلاف بھی سخت کارروائیاں کی ہیں جن کی امریکہ کی طرف سے نشاندہی کی گئی تھی۔ایف اے ٹی ایف کے ساتھ پاکستانی حکام کی ملاقاتوں میں اس بات پراطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایس ای سی پی میں قابل قدر اصلاحات کی گئی ہیں۔پاکستان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ نا مساعد حالات کے باوجود بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرے اور ایف اے ٹی ایف کی طرف سے دیے گئے تمام نکات کو پورا کرے۔اس کے باوجود کہ پاکستان کو مختلف مشکلات کا سامنا ہے۔پاکستان دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کا سخت مخالف ہے۔ایف اے ٹی ایف کے نکات کی تکمیل کی راہ میں بہت سی مشکلات حائل ہونے کے باوجودپاکستان کی کوششیں جاری ہیں۔بھارت اور اس کے اتحادی پاکستان کو دبائو میں رکھنے کے لئے ایف اے ٹی ایف کو ایک سیاسی آلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
منی لانڈرنگ سے متعلق نئے قوانین کے مطابق ملوث کمپنیوں پر 10 کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے آئندہ اجلاس کے لئے سفارشات پر عملدرآمد کی رپورٹ ارسال کر دی ہے۔رپورٹ میں ستمبر2020ء تک اقدامات اور کار کردگی کی تمام تفصیلات شامل کی گئی ہیں۔منی لانڈرنگ سے متعلق جو نئے قوانین نافذ کئے گئے ہیں ان کی تفصیلات بھی رپورٹ میں شامل ہیں۔ملوث کمپنیوں پر 10 کروڑ روپے جرمانہ اور مشکوک ٹرانزیکشن پر کارروائی کی تفصیلات بھی بھجوائی گئی رپورٹ کا حصہ ہیں۔کمپنی کا 25 فیصد شیئر ہولڈر بے نامی نہیں رہ سکے گا۔بے نامی شیئر ہولڈرز کو ختم کیا جا سکے گا۔استعمال شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت بینک کے ذریعے کرنے اور اس پر سیلز ٹیکس کا نفاذ بھی ممکن بنا دیا گیا ہے۔اب حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی مختلف اور سخت شرائط پوری کر دی ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ابتدائی اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریوینو نے پہلی سہ ماہی میں1004ارب روپے کا نیٹ ریونیو حاصل کیا ہےجبکہ مقررہ ہدف 970ارب روپے تھا۔سیلز ٹیکس سے حاصل کردہ ریونیو426 ارب روپے اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 56ارب روپے جبکہ کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں وصولیاں 164ارب روپے ہوئی ہیں۔ایف بی آر نے رواں مالی سا ل کی پہلی سہ ماہی میں 48 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کئے ہیں جبکہ گزشتہ سال26.5ارب روپے کے ریفنڈز جاری ہوئے تھے۔ریفنڈز میں اضافے کی بدولت معاشی سرگرمیوں میں تیزی اور بہتری آئی ہے۔ حکومتی کوششوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے اور امید کی جاتی ہے کہ پاکستان کی بھرپور کوششوں اور متعدد نکات پر عملدرآمد کو ایف اے ٹی ایف کے آئندہ اجلاس میں ضرور مد نظر رکھا جائے گااور پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)