• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلاشبہ بیٹیاں اللہ رب العزت کی طرف سے والدین کے لیے انعام ہوتی ہیں۔ وہ ایک ایسا پھول ہوتی ہیں جو کِھلتے ہی اپنی خوشبو ہر سُو پھیلا دیتا ہے۔ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے بیٹی کے والدین کو خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا:

’’جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں کہ ’اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو‘۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں ’’یہ کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے، جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا، قیامت تک خدا کی مدد اس کے شاملِ حال رہے گی‘‘۔ (طبرانی)

نبی آخر الزمان ﷺ خود بھی بیٹیوں والے تھے، اگر کسی کی ایک یا ایک سے زائد بیٹیاں ہیں تو اس سے زیادہ فخر کی کیا بات ہوسکتی ہے کہ اس وجہ سے اسے نبی کریم ﷺ سے ایک نسبت اور مشابہت حاصل ہے۔

رحمت اللعالمین حضرت محمدﷺ نے فرمایا، ’’جس شخص نے تین لڑکیوں اور تین بہنوں کی سرپرستی کی، انہیں تعلیم و تربیت دی اور ان کے ساتھ رحم کا سلوک کیا، یہاں تک کہ خدا انہیں بے نیاز کردے تو ایسے شخص کے لیے خدا نے جنت واجب فرما دی‘‘۔ اس پر ایک آدمی بولا، ’’اگردو ہوں؟‘‘ تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’دو لڑکیوں کی پرورش کا بھی یہی صلہ ہے‘‘۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ ایک کے بارے میں پوچھتے تو آپ ﷺ ایک کی پرورش پر بھی یہی بشار ت دیتے۔ (مشکوٰۃ)

کہنے کو تو ہم اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں مگر افسوس کہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں۔ آج بھی اکثریت زمانہ جاہلیت کی طرح بیٹی کی پیدائش پر زیادہ خوشی محسوس نہیں کرتی۔ اور اگر ایک سے زائد بیٹیاں پیدا ہوجائیں تو انہیں رحمت کے بجائے بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بیٹیوں سے حسنِ سلوک روا نہ رکھنا اور لڑکو ں کے مقابلے میں انہیں جائز حقوق نہ دینا اللہ کی نعمت کی ناشکری کے مترادف ہے۔

دنیا بھر میں کم عمر بچیوں کی اہمیت کو اُجاگر کرنے، بااختیار بنانے، ان کے انسانی حقوق کی تکمیل کے فروغ، انھیں جائز حقوق دلوانے اور انھیں درپیش ضروریات ومسائل کے حل کے لئے ہر سال11اکتوبر کو اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام بچیوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد کم عمر بچیوں کے حقوق کے بارے میں آگاہی پھیلانا اور ان کو درپیش مسائل اُجاگر کرنا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بچیوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں سے ایک کم عمری میں شادی ہے۔

تقریباً 25سال قبل دنیا کے 200ممالک سے تعلق رکھنے والے 30ہزار کے قریب نمائندے خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق میں شامل کرنے کا عزم لیے چوتھی عالمی خواتین کانفرنس میں شرکت کی غرض سے چین کے دارالحکومت بیجنگ پہنچے۔ کانفرنس کا اختتام (جو کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے تھا) بیجنگ کو بطور پلیٹ فارم استعمال کرنے پر ہوا، پھر اگلے چند سالوں کے دوران دنیا نے دیکھا کہ خواتین کے جنسی وتولیدی صحت کے حقوق سے لے کر مَردوں کے مساوی تنخواہوں تک جیسی بے شمار تحریکیں زور پکڑتی چلی گئیں۔ آج ان تحریکوں کا دائرہ کا ر مزید وسیع ہوچکا ہے، جن میںکم عمری میں بچیوں کی شادی ، تعلیم میں عدم مساوات، صنفی و جنسی تشدد اور خود اعتمادی کی کمی جیسے مسائل بھی شامل ہیں۔

بچی کو بااختیار اور باشعور لڑکی بنانے میں والدین کا کردار سب سےزیادہ اہمیت کا حامل ہوتاہے ۔ اس کی حفاظت و تربیت کے ساتھ ساتھ بااختیار بنانے کے لیے والدین کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، جس کے لیے چند خاص نکات پر نظر رکھنا بے حد اہم ہے ۔

٭ موجودہ معاشرے میں یہ ضروری ہے کہ بچی کی تربیت صنفی امتیاز سے بالا تر ہو کر کی جائے۔ والدین کو چاہیے کہ بچپن ہی سے بچیوں کی مہارتوں اور صلاحیتوںپر اعتماد کرتے ہوئے انھیں آگے بڑھنے کی جانب مائل کریں تاکہ وہ اپنی شخصیت سے متعلق ظاہری اور باطنی دونوں قسم کا اعتماد حاصل کرسکیں۔

٭ والدین بیٹیوں کی تربیت کے حوالے سے بعض اوقات زیادہ حساس ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا گھر میں بیٹوں کے لیے الگ اور بیٹیوں کے لیے الگ قوانین وضوابط ترتیب دیے جاتے ہیں۔ بچپن میں اگر بیٹیاں جھگڑا کریں یاصوفے پر جمپ لگانا شروع کردیں تو فوراً روک ٹوک شروع ہوجاتی ہے۔ بچیوں کے لیے کھانے پینے کے آداب، گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کی ذمہ داری اور سونے جاگنے کے اوقات مختص کردیے جاتے ہیں جبکہ لڑکوں کے معاملے میں یہ باتیں نظرانداز کردی جاتی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بیٹیوں کی پرورش میں مختلف اصول وضوابط مرتب کرنے کے بجائے یکساں قوانین ترتیب دیے جائیں۔ انھیں وہ تمام سرگرمیاں (ایکٹیوٹیز) کرنے کی اجازت دی جائے، جن کی بیٹوں کو اجازت دی جاتی ہے ۔

٭ ماہرین کے مطابق،بچپن میں بچوں کے لیے استعمال کیے جانے والے مخصوص الفاظ ان کی ذہنی سوچ پروان چڑھاتے ہیں۔ بچیاں جب کوئی کام مکمل کرلیں تو ان کے لیے تعریفی کلمات ادا کریں۔ ا پنی بیٹی کی تعریف کرنے کے لیے الفاظ کا ذخیرہ وسیع کریں اور اس میں تخلیقی، طاقتور، بہادر، رحمدل، پُراعتماد اور آرٹسٹک جیسے الفاظ شامل کریں۔

٭ ماں کی گود چونکہ بچے کے لیے پہلی درسگاہ ثابت ہوتی ہے، اس لیے یہ درسگاہ جتنی باشعور اور تعلیم یا فتہ ہوگی عین ممکن ہے کہ اتنی ہی بہتر انداز میں بچوں کی تعلیم وتربیت ہوپائے۔ اسی لیے لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں ماہرین کی رائے ہے کہ جو پیسہ لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کیا جارہا ہو، سمجھ لیں کہ وہ قوم کے لیے سرمایہ کاری کے طور پر خرچ کیا جارہا ہے۔ ہر بچی کو تعلیم ضرور دینی چاہئے تاکہ مستقبل میں کسی بھی ناخوشگوار صورت حال میں وہ اپنے پاؤں پر خود کھڑی ہو سکے اور کسی دوسرے پر بوجھ نہ بنے۔

٭ آجکل جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کے باعث یہ لازمی ہوگیا ہے کہ والدین بچیوں کو اپنی حفاظت خود کرنے (Self Defense) کی تربیت دیں تاکہ کسی بھی قسم کے ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں وہ اپنا بچاؤ کرسکیں۔

تازہ ترین