جمہوری ممالک میں سب سے زیادہ توجہ قانون سازی پر دی جاتی ہے اور وقت کے ساتھ قوانین میں اصلاح اور ضرور ت کے مطابق نئے قوانین متعارف کرائے جاتے ہیں جس سے ان ممالک کےعوام انصاف پر مبنی معاشرہ میں پر سکون زندگی گزارتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ اور جمہوری ممالک میں جاری قوانین میں اصلاح اور نئے قوانین بننے سے پہلے عوام کی رائے معلوم کرنے اور ماہرین قانون و سول سوسائٹی کے باشعور افراد کی سفارشات حاصل کرنے کیلئے سرکاری سطح پر مستقل، آزاد اور خود مختار لاء ریفارمزکمیشنز قائم ہیں ۔ پاکستان میں 1979ء میں چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ایک آرڈیننس کے ذریعہ لاء کمیشن آف پاکستان تشکیل دیا گیا۔2002میں جنرل پرویز مشرف نے ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے لاء کمیشن آف پاکستان میں ترمیم کر کے اسے لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کا نام دے دیا جس کے 14اراکین ہیں اور اس کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان ہیں۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کا علیحدہ سیکرٹریٹ سپریم کورٹ آف پاکستان کی بلڈنگ میں قائم ہے۔ جب ہم دیگر ترقی یافتہ جمہوری ممالک کے لاءکمیشنز کے قوانین کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں کہیںبھی حاضر سروس جج اس کا ممبر نظر نہیں آتا‘ اس کی واضح مثال اسی خطے کے ممالک ہندوستان، بنگلہ دیش،سری لنکا اور نیپال ہیں جہاں اعلیٰ عدلیہ کا کوئی ریٹائر ڈ جج لاء کمیشن کا سربراہ مقرر نہیں کیا جاتا اور قانون اور سول سوسائٹی کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد اس کے ممبر بنائے جاتے ہیں اور ممبران کی میعاد تین سے پانچ سال تک ہوتی ہے‘ اس طرح آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، امریکہ وغیرہ میں بھی تقریباً یہی طریقہ کاررائج ہے ۔آئین پاکستان کے تحت کسی بھی قانون کو جو کہ آئین کے بنیادی حقوق و خلافِ اسلام ہو، کی تنسیخ کا اختیار سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے پاس ہے تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اتنا وسیع اختیار رکھنے کے باجود اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس صاحبا ن کس بنیاد پر وزارت قانون کے ماتحت لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہی اور رکنیت اپنے پاس رکھے یا قبول کئے ہوئے ہیں جبکہ اس کمیشن کے سربراہ یا رکن کے طور پر ان کے پاس کسی بھی قانون کے متعلق وزارت قانون کو صرف سفارشات بھیجنے کا اختیار ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جس قانون میں ترمیم یا اصلاح کی سفارش اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس صاحبان نے کی ہو‘ اس کو کس طرح کوئی شہری اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کر سکتاہے؟ اس طرح پاکستان میں رہنے والے بائیس کروڑ عوام کو انکے بنیادی آئینی حق سے بھی محروم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس وقت لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان تقریباً غیر فعال ہے۔
یہ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں پر ماہانہ اربوں روپے کے ہونے والے اخراجات پاکستان کے غریب عوام سے ٹیکسوں کی صورت میں وصول کیے جاتے ہیں مگر عوام کو آئین میں دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق کے لیے قانون سازی نہ ہونے کے برابر ہے۔دراصل لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کا وفاقی وصوبائی حکومتوں کے علاوہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مگر وفاقی و صوبائی حکومتوں اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں نےکبھی قانون سازی کے معاملہ میں اس اہم ترین شعبہ سے مشاورت اور اس کے ذریعے قوانین کی اصلاح وغیرہ کی ضرورتکو محسوس نہ کیا ہے۔ ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اب وقت آگیا ہے کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان میں دیگر جمہوری ممالک کی طرح اصلاحات کی جائیں‘ اس لیے لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان میں اصلاحا ت کے بارے میں چند تجاویز درج ذیل ہیں:
(1) وفاقی اور صوبائی سطح پر علیحدہ علیحدہ سرکاری سطح پر خود مختار اور آزاد لاء ریفارمز کمیشن قائم کئے جائیں۔(2) سپریم کورٹ آف پاکستان کا ریٹائر ڈ جج وفاقی لاءکمیشن کا سربراہ ہو اور صوبائی سطح پر مقامی ہائی کورٹ کا ریٹائرڈ جج اس کمیشن کا سربراہ ہو۔(3) قانون و دیگر شعبہ ہائے زندگی اور سماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس کا مستقل رکن نامزد کیا جائے اور معیاد عہدہ تین سال مقرر کی جانی چاہئے۔(4) کمیشن میں جزوقتی ممبران نامزد کیے جائیں جوکہ اپنے اپنے شعبہ میں مہارت رکھتے ہوں اور قوانین کی اصلاح وغیرہ میں صحیح رہنمائی کر سکیں۔(5)کمیشن کے مستقل اور جزوقتی ارکان دوران مدت عہدہکسی دوسرے عہدہ کو قبول کرنے سے ممنوع ہوںاور ان اراکین کو دوران عہدہ معقول مشاہرہ اور مراعات دی جانی چاہئیں۔(6)وفاقی و صوبائی سطح پر ہرکمیشن کا اپنا علیحدہ سیکر ٹریٹ قائم ۔(7) کمیشن کے فرائض اور ورکنگ پلان کو دوبارہ تشکیل دے کر عوام کی رسائی وفاقی اور صوبائی کمیشنز تک آسان بنائی جائے تا کہ وہ کمیشن کو اپنی آراء سے آگاہ کر سکیں۔
ضروری ہے کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان میں موجودہ حالات کے مطابق ضروری اصلاحات فرمائی جائیں تاکہ پاکستان میں مروجہ اور نئے بننے والے قوانین عوامی امنگوں کے مطابق نافذ ہوں۔
یہ کسی قدر افسوسناک بات ہےکہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں پر ماہانہ اربوں روپے کے ہونے والے اخراجات پاکستان کے غریب عوام سے ٹیکسوں کی صورت میں وصول کیے جاتے ہیں مگر عوام کو آئین میں دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق کے لیے قانون سازی نہ ہونے کے برابر ہے۔دراصل لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کا وفاقی وصوبائی حکومتوں، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے مگر وفاقی و صوبائی حکومتوں اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں نےکبھی قانون سازی کے معاملہ میں اس اہم ترین شعبہ سے مشاورت اور انکے ذریعے قوانین کی اصلاح وغیرہ کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا جو کہکسی بھی جمہوری ملک میں رہنے والے عوام کے لیے نہ صرف ایک المیہ بلکہ لمحہ فکریہ ہے۔