اسکی ماں نے اس دن اسکا چاند سا چہرہ دیکھا ہو گا اسکے سنہرے ریشمی بالوں کو اس کے ماتھے پر سنوارا ہو گا، اس کے سیب کی طرح گلابی گالوں کو چوما ہو گا تو اسے علم نہ گا کہ یہ کومل چہرہ اور پھول سے ہاتھ پائوں اسے دوبارہ چومنے کو نہ مل پائیں گے۔ ڈھائی سالہ بچی جس کا نام زینب بتایا جا رہا ہے ،نے مرتے سمے اپنا بازو اپنی آنکھوں پر رکھ لیا تھا تبھی میڈیا پر اس ننھی منی کلی کی تصویریں اسی طرح جاری کی گئی ہیں۔ نہ معلوم اس نے یہ اپنا پھول سا بازو اپنی آنکھوں پر خود کو دنیا سے چھپانے کے لیے رکھا ہے یا اس بے رحم دنیا کو اپنی آنکھوں سے اوجھل کرنے کے لیے یا پھر شاید جو کچھ اس پر بیت رہی تھی اس کو دیکھنے کی تاب نہ لاتے ہوئے۔ زینب کی تصویر دیکھ کر میرے آنسو رکنے نہ پائے اور مجھے زہرا نگاہ کے یہ الفاظ یاد آگئے کہ ’’سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے ،سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے ۔۔۔۔۔ خداوندا! جلیل و معتبر! دانا و بینا! منصف و اکبرمرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر ‘‘بچپن میں سنتے تھے کہ جب کہیں پر کوئی ناحق قتل ہوتا تو آسمان لال ہو جاتا لیکن یہاں تو نہ آسمان سرخ ہوا نہ ہی لال آندھی آئی۔ ریاست مدینہ میں اب تک قیامت کیوں نہ آگئی۔ سب خاموش۔۔۔ سب کو اپنی اپنی یا اپنی سیاست کی پڑی ہے۔ ایسے میں درندوں کے ہاتھوں مسلی جانے والی کلی کی کس کو خبر؟دو سالہ ایلان کردی کی لاش ترکی کے ساحل پر اوندھی پڑی ملی تو پوری دنیا کے اخبارات کی شہ سرخی بنی تھی۔ جرمنی نے پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھول دئے تھے۔ ڈھائی سالہ زینب کی لاش ایلان کی طرح اوندھی نہیں سیدھی پڑی تھی لیکن اس کی آنکھوں کو ڈھانپے اس کا ہاتھ دنیا کے منہ پر طمانچہ ہے۔ڈی ایچ کیو چار سدہ کی میڈیکل آفیسر کے مطابق بچی کے جسم پر تشدد اور زخموں کے نشان بتا رہے ہیں کہ اسے نہایت بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا ۔ پاکستان میں کوئی ایسا مکینزم ہی نہیں ہے کہ اگر کوئی بچہ اغوا ہو جائے تو پورے شہر کو الرٹ کیا جا سکے۔ امریکہ اور چند دیگر ممالک میں ایمبر الرٹ کا نظام ایسا شاندار ہے کہ بچے کے اغوا ہوتے ہی شہر کے ہر فرد کے موبائل پر الارم بجنے لگتا ہے جس کے ذریعے پولیس کی طرف سے لکھا ہوا پیغام بھیجا جاتا ہے کہ کس جگہ کوئی بچہ اغوا ہوا ہے اور کون سی گاڑی پرشبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ تا کہ پورے شہر میں کوئی بھی فرد اس گاڑی یا فرد کو دیکھے تو فورا پولیس کو اطلاع دے۔آخر ہمارے ملک میں ایسا کوئی نظام رائج کیوں نہیں ؟کیااس کی وجہ یہ ہے کہ بچے ہمارے ترجیح نہیں ہیں اور غریب کا بچہ تو گویالاوارث ہوتا ہے ۔ موٹر وے سانحے کو آج ایک ماہ ہو گیا ابھی تک مرکزی ملزم عابد نہ پکڑا جا سکا۔ پیمرا کی طرف سے حکم ہے کہ موٹر وے واقعے پر نہ تو قلم اٹھایا جائے نہ ہی آواز کہ اس سے پولیس کی رہی سہی عزت خاک میں ملنے کا امکان ہے کہ اب تک ایک ملزم نہ پکڑ سکی ۔ ملزم عابد تو شاید بہت خوش ہو گا کہ سب کچھ ٹھنڈا پڑ گیا کچھ ہی دن میں لوگ سب بھول بھال جائیں گے،اس طرح کے واقعات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے۔وہ لوگ جنھوں نے قصور کی زینب کے قاتلوں کو سزا دلوانے کے لیے زمین و آسمان ایک کر دیا تھا نہ جانے آج وہ کہاں ہیں۔ یہ سانحہ چار سدہ میں ہوا ہے جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے تو کیا چار سدہ کی زینب کے لیے آواز بلند نہ کی جائے گی؟موٹر وے کے سانحے میں متاثرہ خاتون نے جب زینب کی بے آسرا چھوٹی سی لاش ویرانے میں پڑی دیکھی ہوگی تو نہ جانے ان کے دکھ میں اضافہ ہوا ہو گا یا زینب نے ان کا درد بانٹ لیا ہو گا۔ خبر یہ ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے مجرموں کی گرفتاری کیلئے فوری ہدایات جاری کر دی ہیں ۔ کاش وہ یہ ہدایات بچی کے اغوا کے فورا بعد اس کی بازیابی کے لیے جاری کرتے تو زینب آج زندہ ہوتی۔ کسی بسکٹ کا اشتہار تو خیر اس معاشرے میں کیا عریانی پھیلاتا مگر ڈھائی سالہ زینب کی اس تصویر نے اس معاشرے اور یہاں کے نظام کو عریاں کرکے رکھ دیا ہے۔ ٹی وی کے اشتہاروں، گانوں ، فلموں اور رقص کو برائی کا سبب قرار دینے والوں سے سوال ہے کہ ڈھائی سالہ بچی کے لباس میں ایسی کیا خرابی ہو گی کہ وہ اس سلوک کی مستحق ٹھہری؟ہمارے ملک کے دانشوروں کے کندھوں پر یہ ذمے داری آن پڑی ہے کہ اس معاشرے کو عریانیت سے نجات دلانی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک بہن یا بیٹی پوری آستین کا نہایت مناسب لباس پہن کر کرکٹ کھیلے تو فحاشی سات گز کا گھاگرا اور چنری پہن کر ثقافتی رقص کر لے تو معاشرے کی عزت خطرے میں پڑ جاتی ہے جبکہ ایک باڈی بلڈر مرد انتہائی مختصر لباس میں ورزش کرے یا کبڈی کا کھلاڑی لنگوٹ باندھ کر اکھاڑے میں اترے تو ملک کا فخر کہلاتاہے یہی دانشور ان کے جسمانی خد و خال کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں تو کیا شرم حیا صرف عورت کے لیے ہی ہے۔۔۔۔۔ لیکن سوال تو وہیں موجود ہے کہ ڈھائی سال کی ننھی کلی کو دیکھ کرکسی میں ایسے جذبات کیسے جاگ سکتے ہیں ۔ کیا کوئی دانشور اس سوال کا جواب ڈھونڈ کر لا سکتا ہے؟